1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہزارہ برادری کی ہلاکتیں ’نسل کشی‘ ہے، ثاقب نثار

11 مئی 2018

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے بلوچستان میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کو نسل کشی سے تعبیر کرتے ہوئے حکومت سے 15 یوم میں اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2xYeC
Pakistan Quetta Oberstes Gericht
تصویر: DW/Ghani Kakar

سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران چیف سکریٹری بلوچستان اورنگزیب حق، سیکریٹری داخلہ، آئی جی پولیس اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر ہزارہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ لیاقت ہزارہ سمیت ہزارہ قبیلے کے دیگر عمائدین بھی موجود تھے۔
ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا، ’’ ہزارہ براری کی ٹارگٹ کلنگ کو ہم نے ان کی نسل کشی کے طور پر دیکھا اسی لیے اس پر سو موٹر ایکشن لیا گیا۔‘‘ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہزارہ برادری طویل عرصے سے عدم تحفظ کا شکار ہے۔آئی جی پولیس سے استفسار کرتے ہوئے انہوں نے کہا، " ہزارہ برادری کی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ روکنے کے لیے کیا اقدامات کئے گئے ہیں کیا آپ نےکوئی رپورٹ تیار کی ہے ؟ یہ واقعات کیوں پیش آرہے ہیں آپ اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔"

آئی جی پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کو بتایا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے رپورٹ بھی تیا رکی گئی ہے۔
آئی جی پولیس نے کہا، "ماضی کی نسبت بلوچستان میں فرقہ وارانہ حملوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ سن 2012 سے اب تک فرقہ وارانہ حملوں میں 124 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جن میں 96 افراد ایسے ہیں، جن کا تعلق شیعہ مسلک سے جبکہ 28 افراد کا تعلق سنی مسلک سے ہے۔ شدت پسدنوں کے حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں اور  مسیحی کمیونٹی کے افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کی جان و مال کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیاجائے۔"
سماعت کے دوران ہزارہ برادری کے وکیل افتخار علی نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ 20 سالوں سے ہزارہ برادری کو دہشت گردانہ حملوں کے دوران نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب تک شدت پسندوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں ہوئی ہے ۔ افتخار علی کے بقول ہزارہ برادری کے افراد نسل کشی کی وجہ سے ملک چھوڑ کر مجبوراً آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں جا کر پناہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ برادری پر بلوچستان میں روزگار کے دروازے بھی بند کیے گئے ہیں اور حال ہی میں ہزارہ قبائلی عمائدین سے سکیورٹی بھی واپس لی گئی ہے۔
ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ کوئٹہ میں سکیورٹی کے لیے نیا پلان مرتب کیا جا رہا ہے اور ہزارہ عمائدین کی سکیورٹی واپس نہیں لی گئی ہے۔

Pakistan Quetta - Hazara Gemeinde bei Protesten
تصویر: DW/A. G. Kakar

پاکستان میں ہزارہ کمیونٹی کے دو افراد سمیت چھ ہلاک

بلوچستان میں فائرنگ کا واقعہ، پانچ افراد ہلاک

ہزارہ کون ہیں اور یہ کس سے فرار ہونا چاہتے ہيں؟

سماعت کے موقع پرچیف جسٹس نے حکومت کو حکم دیا کہ ہزارہ برادری کی جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے جامع اقدامات کئے جائیں۔
ہزارہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ لیاقت ہزارہ کے بقول کوئٹہ میں پولیس ہزارہ قبیلے کے افراد کی سکیورٹی کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے اور صرف دعوے کیے جاتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، " ہم آج بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور اپنے موقف سے چیف جسٹس کو آگاہ کیا۔ مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں ہمیں انصاف نہیں مل رہا ہے۔ چیف جسٹس نے تو اب نوٹس لیا ہے میں نے سپریم کورٹ میں 2016 میں بھی ہزارہ قبیلے کی نسل کشی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ اس درخواست پر فیصلہ بھی صادر ہوا لیکن فیصلے پر حکومت نے عمل درآمد اب تک نہیں کیا ہے۔جب تک عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہو گا ہمیں انصاف نہیں مل سکتا۔"
لیاقت ہزارہ نے  مزید کہا، ’’ہمیں اپنے حق کے لی آواز بلند کرنے سے روکا جا رہا ہے، جب ہم اپنی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو پولیس ہمارے خلاف اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، " دہشت گردی کی حالیہ لہر کے خلاف ہم نے جو احتجاج کیا ہے اس کے الزام میں ہمارے خلاف کوئٹہ پولیس نے بلا وجہ مقدمات درج کئے ہیں۔ ان مقدمات کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے حق کے لیے آواز بلند نہ کریں۔ یہ کیسا انصاف ہے جو ہمیں مل رہا ہے۔ حالیہ احتجاج کے بعد وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال سمیت تمام اعلیٰ حکومتی شخصیات نے ہمارے خلاف درج بے بنیاد مقدمات کے خاتمے کا اعلان کیا لیکن ان اعلانات پر عمل درآمد اب تک نہیں ہوا ہے۔"
ہزارہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ کوئٹہ میں حکومتی بے حسی کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بنتی جا رہی ہے اس لیے اب ان کی امید کا محور سپریم کورٹ ہے۔
سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں آج بلوچستان کے ضلع خاران میں شدت پسندوں کے حملے میں 6 پنجابی مزدوروں کی ہلاکت سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت بھی ہوئی۔ چیف جسٹس پر مشتمل دو رکنی بینچ میں اس واقعے کے حوالے سے سکریٹری داخلہ نے اپنی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جہاں مزدور کام کر رہے تھے وہاں سکیورٹی تعینات نہیں تھی؟ اس پرسکریٹری داخلہ نے بتایا کہ مزدوروں کا تعلق اوکاڑ ہ سے تھا اور جس وقت فائرنگ ہوئی وہاں مزدور ایک نجی کمپنی کے کام میں مصروف تھے۔ اس مو قع پر چیف جسٹس نے نجی کمپنی کے سی ای او کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ عدالت نے کمپنی کے سی ای او کو تحریری جواب بھی جمع کرانے کا حکم بھی دیا ہے۔
اس کیس کی مزید سماعت 16 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔ خاران میں مزدوروں پر حملہ 4 مئی کو کیا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔

Pakistan Quetta Anschlag auf Militärfahrzeug
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
Pakistan Sicherheitskräfte vor Kirche in Quetta
تصویر: picture-alliance/Zumapress

کوئٹہ: گرجا گھر پر حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کر لی

کوئٹہ ميں مسيحيوں کو گھروں ميں رہنے کی ہدايت

بلوچستان میں نیا حملہ، کیا سکیورٹی ناکافی تھی؟

خاران میں شدت پسندوں کے حملے میں جاوید نامی مزدوربھی ہلاک ہوا تھا۔ مقتول جاوید کے بھائی محمد زاہد کا کہنا ہے کہ خاران میں سیکیورٹی کے کوئی انتظامات نہیں کئے گئے تھے ۔
کوئٹہ میں سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، " انتظامیہ کی بے حسی کی وجہ سے خاران میں مزدوروں پر حملہ کیا گیا۔ نجی موبائل فون کمپنی کے ٹھیکہ دار نے یقین دہانی کرائی تھی کہ خاران میں سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں اسی لیے مزدور کام کے لئے وہاں گئے۔ جس وقت موبائل ٹاور پر کام ہو رہا تھا وہاں کوئی سکیورٹی اہلکار موجود نہیں تھے۔ ہم نے آج سیریم کورٹ میں اپنا موقف بھی پیش کردیا ہے۔"
سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں زرغون روڈ چرچ حملے سے متعلق کیس کی سماعت بھی ہوئی اور چیف جسٹس نے اس امر پر شدید برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے لواحقین کے لیے امداد کا اعلان تو کر دیتی ہے مگر امدادی رقم کسی کو وقت پر نہیں ملتی۔
اس کیس کی سماعت کے دوران سکریٹری داخلہ بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے امدادی رقم جاری کردی ہے اور ڈپٹی کمشنر قانونی کارروائی کے بعد متاثرین میں امدادی رقوم تقسیم کریں گے۔ چیف جسٹس نے حکومت کو حکم دیا کہ متاثرہ خاندانوں کوامدادی رقم جلد از جلد فراہم کی جائے۔


ہزارہ افراد کی لاشیں چیک پوسٹوں کے بیچ گرتی ہیں، جلیلہ حیدر