1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہلمند صوبے پر طالبان قبضہ کر سکتے ہیں: نائب گورنر

عابد حسین20 دسمبر 2015

افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان عسکریت پسندوں کے درمیان ہلمند میں شدید جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اِس صوبے کی مجموعی سکیورٹی کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HQgO
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Khaliq

افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند کے نائب گورنر نے اِس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اُن کے صوبے کی سکیورٹی کمزور سے کمزور ہو رہی ہے اور ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ صوبہ طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے میں جا سکتا ہے۔ یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ ہلمند میں عسکریت پسندوں اور حکومتی سکیورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دو ایام کے دوران اِن جھڑپوں میں کم از کم نوے سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

ہلمند کے نائب گورنر محمد جان رسول یار نے اپنے صدر اشرف غنی کو مخاطب کرتے ہوئے فیس بک پر پیغام روانہ کیا ہے۔ اُس میں انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں افیم کی پیداوار کا مرکزی علاقہ اور طالبان کا گڑھ کہلانے والے صوبے کی سکیورٹی کے لیے خصوصی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ سرکاری کنٹرول سے نکل جائے گا۔ رسول یار نے تحریر کیا:’’ عزت مآب، ہلمند آپ کی فوری توجہ کا طالب ہے کیونکہ یہ کمزور سلامتی کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے۔ رسول یار نے یہ بھی لکھا کہ اُن کی سکیورٹی فورسز کو وقت پر ہتھیار اور خوراک میسر نہیں اور اِس باعث اُن کی توانائیوں میں مسلسل کمی پیدا ہو رہی ہے۔‘‘ نائب گورنر کے مطابق زخمیوں اور مرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کو جلد ہسپتالوں تک پہنچانے کا عمل بھی مناسب نہیں ہے۔

Afghanistan Black Hawk Helicopter
افغان فوج کے پاس جدید اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بھی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Maqbool

محمد جان رسول یار کی کھلی اپیل اِس امر کی غماز ہے کہ افغانستان کے اندر سکیورٹی کے حالات کیا رخ لے رہے ہیں۔ اسی صورت حال کا شاخسانہ رواں برس ستمبر کے آخر میں قندوز شہر پر طالبان کا مختصر قبضہ تھا لیکن اس سے ملکی فورسز کی مجموعی صورت حال سے نقاب اٹھ گیا تھا۔ عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ہلمند حکومتی کنٹرول سے نکل کر طالبان کے کنٹرول میں چلا جاتا ہے تو یہ کابل حکومت کے دعووں کی قلعی کھول دے گا کہ اُس کی فوجیں اب عسکریت پسندی کا تنہا مقابلہ کر رہی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ قندوز پر امریکی و برطانوی فوج کی مدد سے دوبارہ قبضہ حاصل کیا گیا تھا۔

ہلمند صوبے کے نائب گورنر کے فیس بک پر جاری ہونے والے پیغام کے بارے میں افغان فوج کے ترجمان محمد رسول زازئی نے تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سکیورٹی کی مخدوش صورت حال کے باوجود ہلمند طالبان کے ہاتھوں میں کسی صورت نہیں جا سکتا۔ صوبائی پولیس چیف عبدل رحمان سَرجنگ کا کہنا ہے کہ ہلمند کی پولیس اور دوسری سکیورٹی فورسز بہت قوت کی حامل ہیں اور ہلمند پر جہادی کنٹرول نہیں کر سکتے۔ سَرجنگ کے مطابق بعض علاقوں سے جنگی حکمت عملی کے نتیجے میں پیچھا ہٹا گیا ہے اور جلد ہی کئی علاقوں میں مثبت پیش رفت دیکھی جائے گی۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران یہ صوبے کئی اہم جھڑپوں کا علاقہ بن چکا ہے۔ موسیٰ قلعہ کے بعد طالبان نے زاد نامی ضلع پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ خان شین کا ضلح آج کل عسکریت پسندوں اور حکومتی فوج کے درمیان لڑائی کا مرکز بنا ہوا ہے۔