1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہلیری کلنٹن کا دورہ لبنان

Adnan Ishaq26 اپریل 2009

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا دورہ عراق اور لبنان یہ ثابت کرتا ہے کہ نئی امریکی حکومت کی مشرق وسطی پالیسی بالکل واضع ہے۔

https://p.dw.com/p/HehT
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹنتصویر: AP

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن لبنان کے اپنے دورے کے دوران صدر مشل سلیمان اورمقتول لبنانی صدررفیق حریری کے بیٹے سعد حریری سے ملاقات کی۔ امریکی وزیرخارجہ نے لبنانی حکومت سے کہا کہ رواں سال جون میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کو ہرحال میں ممکن بنایا جائے۔

لبنان کے انتخابات کے بارے میں ہلیری کلنٹن نے کسی بھی قسم کی کوئی قیاس آرائی کرنے سے گریزکیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ الیکشن ڈروخوف کے سائے اور کسی بیرونی اثرورسوخ کے بغیرمنصفانہ اندازمیں منعقد کرائیں جائیں گے اورانتخابی نتائج اعتدال پسند اورمثبت سمت کی طرف اشارہ کریں گے۔ کلنٹن نے مزید کہا کہ لبنانی عوام کو یہ پورا حق ہے کہ وہ آزادانہ طریقے سے اپنے نمائندوں کو منتخب کریں۔ امریکی وزیر خارجہ نے لبنانی عوام کو امریکی صدر باراک اوباما کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔


ہلیری کلنٹن کا بطورامریکی وزیرخارجہ لبنان کا یہ پہلا دورہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایسا کوئی بھی معاہدہ شام کے ساتھ نہیں کرے گا کہ جس میں لبنان کے عوام اور سالمیت کو نظراندازکیا جا رہا ہو۔ لبنان میں پارلیمانی الیکشن کے لئے سا ت جون انتخاب کیا گیا ہے۔ ان انتخابات میں ایک جانب مغرب نواز جماعتیں جبکہ دوسری جانب حزب اللہ اور اس کی حامی ہیں۔ کلنٹن نے کہا کہ اگرحزب اللہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو اس کے بعد ہی امریکہ کی لبنان کے حوالے سے نئی حکمت عملی کے بارے میں کچھ کہا جا سکے گا۔

حزب اللہ نے کلنٹن کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہےکہ ایک طرف امریکی وزیرخارجہ انتخابات میں بیرونی مداخلت کو رد کررہی ہیں تو دوسری جانب خود وہی کام کر رہی ہیں۔ حزب اللہ کے ذرائع کے مطابق انتخابات میں کامیابی کی صورت میں مغربی ممالک لبنان پراسی طرح پابندیاں عائد کریں گے جیسا 2006 میں فلسطین میں حماس کی فتح کے بعد کیا گیا تھا۔

لبنان کے داخلی حالات میں گذشتہ کئی ماہ سے استحکام دیکھنے میں آرہا ہے۔ امریکہ 2006 کے بعد سے اب تک لبنان کو 309 ملین یورو کی عسکری مدد فراہم کر چکا ہے جن میں ٹینک، لڑاکا طیارے اور لبنانی دستوں کی تربیت شامل ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حزب اللہ کے برسر اقتدار آنے کے بعد آیا یہ امریکی امداد جاری رہے گی ؟