1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہماری درسی کتب اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مواد

7 اکتوبر 2020

اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا طلبا پر اس قدر گہرا اثر ہوتا ہے کہ آج پندرہ سال بعد بھی اگر اپنے سکول کے زمانے کو یاد کروں تو سر گل زمان خان کا نام یاد آتا ہے، جنہوں نے میری سوچ کو تعمیر کرنے میں اہم کردار کیا۔

https://p.dw.com/p/3jXxj
DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

ہمارا دور تختہ سیاہ اور چاک کا دور تھا۔ سر گل زمان کی ایک عجیب عادت تھی کہ وہ تختہ سیاہ کو ڈسٹر سے صاف کرنے سے پہلے اپنی آنکھوں سے چشمہ اتار کر صاف کرتے اور ہم ان پر ہنستے کہ سر یہ کیا کر رہے ہیں ؟ سر کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا کہ بعض اوقات دھول اور گرد ہماری اپنی آنکھوں پر ہوتی ہے اور ہمیں سامنے کا منظر دھندلا دکھائی دیتا ہے اور اس لیے اگر مجھے کبھی تختہ سیاہ گرد آلود دکھائی دے تو پہلے اپنا چشمہ صاف کرتا ہوں۔ اس طرح ان کی لاتعداد باتیں ہیں، جن کی گہرائی مجھے کہیں بعد میں جاکر پتہ چلی۔

گزشتہ دنوں ایک ٹیچرز ٹریننگ کا حصہ بننے کا  موقع ملا، جس کا بنیادی مقصد انسانی حقوق، یکساں قومی نصاب، تنازعات کے حل، اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے طلبا سے ان کے مسائل کے بارے میں مکالمہ اور نصاب میں موجود 'متعصبانہ اور جانبدارانہ‘ مواد پر کام کرنا تھا۔

یہ ٹریننگ میرے لیے سر گل زمان خان اور ان کے چشمے کی کہانی والا عملی تجربہ ثابت ہوئی۔ چونکہ میں مذہبی اکثریت کا حصہ ہوں تو مجھے کبھی احساس ہی نہ ہوا کہ ہمارا نصاب کتنی جانبداری سے آنے والی نسلوں کے ذہن میں تعصب کے بیج بو رہا ہے۔ مثال کے طور پر جماعت دہم کی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی اُردو کی کتاب اٹھایے۔ کتاب میں موجود چوبیس اسباق بشمول حصہ شاعری، چار پانچ اسباق اسلام کی سربلندی  اور برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر مبنی ہیں اور ان اسباق میں بارہا ہندوؤں مذہب سے متعلق نفرت انگیز کلمات موجود ہیں۔

 اب سوچیے جو کتاب تمام طلبا کے لیے لازمی ہے۔ اس جماعت میں کوئی ہندو اقلیت سے تعلق رکھنے والا بچہ موجود ہو تو اس قسم کی تحریروں سے اس پر کیا اثر ہو گا اور اپنے ہم جماعتوں سے اسکی مزید کیا درگت بنتی ہو گی؟ اس کتاب کے چوبیس اسباق کے مصنفین میں ایک بھی اقلیتی نمائندہ مصنفین میں شامل نہیں ہے۔

 کتاب کے صفحہ نمبر 181 اور 180 پر طلبا کی کردار سازی کے لیے چند حوصلہ افزا جملے تحریر کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک جملہ یہ ہے کہ ''اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی جائے‘‘۔  پوری کتاب میں متعدد جگہوں پر کسی مذہب کا نام لے کر اس کے پیروکاروں کی 'تذلیل‘ کرنے کے بعد آخری صفحے پر ایک جملہ عجیب سا تضاد ہے۔ اور اگر ایک کتاب تمام مذاہب کے طلبا کو پڑھنی ہے تو کیا اس کے مصنفین میں اقلیتی نمائندوں کو شامل نہیں کیا جا سکتا کہ سماج میں موجود تنوع کا عنصر نصاب کا حصہ بھی رہے؟

ابھی میں صرف اردو کی کتابوں کی بات کر رہی ہوں۔ آپ کتب کھولتے جائیں اور اس لینز سے تنقیدی طور پر کتابوں کا جائزہ لیجیے! پھر دیکھیے کون کون سے انکشافات ہوتے ہیں۔ جہاں تہواروں کی بات ہوتی ہے وہاں عید الفطر، عیدالاضحی، عید میلاد النبی اور جشن آزادی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ آپ اگر دیگر ممالک کی کتب سے اپنے نصاب کا موازنہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہاں کے طلبا دیگر مذاہب اور ثقافتوں کے بارے میں اس لیے زیادہ آگاہی رکھتے ہیں کہ ان کے نصاب میں اپنے سماج میں شامل تمام گروہوں کو ان کی پہچان کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں دوسری ثقافتوں اور مذاہب کے لوگوں کو زیادہ اور جلدی قبولیت مل جاتی ہے کیونکہ وہ بچوں کے مطالعے اور مشاہدے کے لیے ان کو تمام مذاہب اور ثقافتوں کے بارے میں آگاہ رکھتے ہیں۔ جبکہ ہم خود سے مختلف لوگوں کو سماج سے کاٹ کر آنے والی نسلوں کو کنوئیں کا مینڈک بنا رہے ہیں، جن کے لیے کوئی بھی الگ شناخت صرف باعث کراہت ہو گی اور یہ لمحہ فکریہ ہے۔

میرے خیال میں یہی خودپسندی یا انتہاپسندی کا آغاز ہے۔ ہماری کتب میں ہر اقلیت سے تعلق رکھنے والا انسان ایک منفی شناخت رکھتا ہے تو دوسری طرف محمود غزنوی جیسے کرداروں کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے کہ جن کے اعمال کو اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو سوائے غصب اور لڑائی کے کچھ دکھائی نہ دے۔

کتابوں میں اگر کسی کو اچھے کردار کی صورت پیش کرنا ہے تو ان کے نام خالص اسلامی ہیں اورکوئی بری مثال پیش کرنی ہے تو وہ نام کسی اقلیت کا ہو گا۔ مطالعہ پاکستان جماعت نہم کی کتاب صفحہ 20-21 کے ایک جملے پر غور کریں، ''یہی وجہ تھی کہ ہندوؤں نے تقسیم بنگال کو ماننے سے انکار کر دیا۔‘‘ یہاں موضوع تقسیم بنگال ہے۔ ( پبلشر پنجاب ٹیکسٹ بک ) یہ کتاب بھی ہر قسم کے مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے لازمی ہے۔ کیا یہ جملہ اس طرح نہیں لکھا جا سکتا تھا کہ ''کانگریس نے تقسیم بنگال کو ماننے سے انکار کر دیا۔‘‘ کانگریس ہندوؤں، مسلمانوں اور دیگر عقائد سے وابستہ سیاسی نمائندوں پر مشتمل جماعت تھی۔ کیا تقسیم ہند والا یہ انتقامی رویہ ہمارے نصاب کو اب تک متاثر نہیں کر رہا؟

اقلیتی طلبا کے گروہ سے سوال و جواب کا سلسلہ ہوا تو ایک سوال پوچھا گیا کہ ''مس اگر آپ کسی باہر کے ملک جائیں اور وہاں آپ کو بجائے مسلم کے نان کرسچین یا نان جیویش کہہ کر پکارا جائے تو کیسا لگے گا؟ مجھے عجیب لگا کہ جب میری پہچان ہی اسلام ہے تو مجھے فقط مسلمان کہہ کر پکارا جائے تو کافی ہے۔

 جواب آیا تو ''مس کیا ہمیں بھی مذہبی اقلیت یا کرسچین یا ہندو وغیرہ کہہ کر نہیں پکارا جا سکتا کیونکہ جب آپ غیر مسلم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہم پر الگ ہونے کا ایک ایسا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جو ہرگز انسانی جذبات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ لفظ غیرمسلم ہمیں گنہگار نہ ہوتے ہوئے بھی ایک غیر ضروری اور جبری احساس جرم کا شکار بنانے کی کوشش لگتا ہے۔ ہمیں غیرمسلم کی بجائے مذہبی اقلیت کہہ لیا کریں، کرسچن ہندو، سکھ بول دیا کریں کیونکہ اگر رنگت کچھ گہری ہو تو ویسے ہی ہم جماعتوں کے ہاتھوں نفرت انگیز کلمات کا شکار رہتے ہیں اور یہ غیر مسلم لفظ کا بار بہت بھاری ہے اور اس لفظ کی کاٹ بہت کاری ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے:

یکساں نصاب: کیا سیاست دانوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے بچے بھی ایک ہی نصاب پڑھیں گے؟

ہمارے بچے فقط ’نوکر بننے‘ کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں

اقلیت سے تعلق رکھنے والے بچے کو اپنے تعلیمی سال کے دوران کبھی نہ کبھی ضرور اس کے اساتذہ یا طلبا کی طرف سے اپنا مذہب چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اسلامیات کی کتاب کے ساتھ اقلیتی بچوں کے لیے اخلاقیات کی کتاب رکھی جاتی ہے پر اکثر وہ کتاب مارکیٹ میں شارٹ ہوتی ہے۔ ٹیچر نہیں ملتا جو اخلاقیات پڑھا ہے تو ایسے طلبا کو بھی اسلامیات پڑھائی جاتی ہے۔

نصاب شاید کبھی بہتر نہ ہو بلکہ یکساں تعلیمی نصاب آنے کی صورت میں تو شاید حالات اور بدتر ہو جائیں۔ ٹریننگ میں یہی سکھایا گیا کہ اگر درسی کتب میں کوئی ایسا جانبدارانہ مواد اور جملہ سامنے آئے تو اس کو فلٹر کر کے تمام طلبا کو ساتھ لےکر چلنا چاہیے۔

 "پاکستان قائد اعظم نے مسلمانوں کے لیے بنایا، قائد اعظم مسلمانوں کے رہنما ہیں۔‘‘ اس طرح کے جملے کتنے عام ہیں ہماری کتب میں۔ وہ اقلیتی کارکن، جنہوں نے پاکستان کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا یا وہ اقلیتیں، جنہوں نے پاکستان میں رہنے کو فوقیت دی اور مسلم لیگ کے لیڈرز کی آواز پر لبیک بھی کہا کیا اس قسم کے بیانات ان کے ساتھ زیادتی نہیں ہیں؟ 

جن کتابوں میں زبان، قوائد و انشا اور ادب سے متعلق مواد ہونا چاہیے وہ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کا ملا جلا ملغوبہ بنا دی گئی ہیں اور ان کو اردو کی درسی کتب کہہ کر پڑھایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ بس یہ ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کے دماغ میں ایک ایسی سوچ پروان چڑھا رہے ہیں کہ ہندوؤں کو بھارت اور مسیحیوں کو امریکا یا برطانیہ میں رہنا چاہیے اور اس ملک میں ان کو کبھی اپنائیت یا اونرشپ کا احساس نہیں ملے گا۔

 وقت ملے تو اپنی آنکھوں پر سے موجود تعصب کی عینک اتاریں اور اپنے بچوں کی درسی کتب کھول کر بیٹھیں اور دیکھیں کہ کتاب میں کتنا ایسا مواد ہے، جوکہ مضمون سے مطابقت نہیں رکھتا اور طلبا کی ایک خاص قسم کی ذہن سازی کی کوشش ہے۔

فرض کیجیے! آپ کا تعلق کسی اقلیت سے ہوتا تو ایسے نفرت انگیز جملے آپ کو کس طرح سے تکلیف دیتے؟ اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے بیچ رہ کر آپ کو مسلسل پردیس میں ہونے کا احساس ہوتا۔ ہم یہ سب انجانے میں کرگزرے ہیں۔ یہ تحریر ایک چھوٹی سی کاوش ہے کہ آئندہ کوئی ایسا جملہ یا تحریر آپ کی نظروں کے سامنے سے گزرے تو آپ کو بھی احساس ہو کہ اس کو کیسے فلٹر کر کے اپنی اولاد یا طالب علموں تک پہنچانا ہے۔ اقلیتوں کی عزت اور ان کے حقوقِ کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔