1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمارے وفاقی وزیرداخلہ غلط کہہ رہے ہیں،وزیر قانون پنجاب

تنویر شہزاد، لاہور13 اگست 2016

لاہور میں بچوں کے اغوا کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ کے دوران صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ خان نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان سے متعلق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا بیان، درست نہیں۔

https://p.dw.com/p/1Jhk7
Chaudhry Nisar Ali Khan
تصویر: picture-alliance/dpa/Metin Aktas/Anadolu Agency

ہفتے کے روز لاہور میں سینیئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا میں پنجاب کی حد تک تو یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری اپنی پارٹی کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے حال ہی میں دیا جانے والا بیان درست نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ ’’یہ جو کومبنگ آپریشن شروع کرنے کی بات ہو رہی ہے، یہ بھی اس لیے قابل فہم نہیں ہے کیوں کہ پنجاب میں تو پچھلے دو سالوں سے کومبنگ آپریشن ہو رہے ہیں، اب تک دس ہزار سے زائد کومبنگ آپریشن ہو چکے ہیں، ایک ہزار سے زائد آپریشن فورسز نے مشترکہ طور پر پولیس کے ساتھ مل کر کیے ہیں۔ ان کاروائیوں کے نتیجے میں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 345 ہتھیار برآمد کیے گئے، 67 افراد کو نظربند کیا گیا، 245 ایف آئی آرز درج کروائی گئیں۔ پنجاب میں 532 مدرسوں کی تلاشی بھی لی گئی اور نفرت انگیز مواد کی اشاعت کے خلاف بھی کاروائیاں کی گئیں۔‘‘

یاد رہے ایک دن قبل پاکستان کے آرمی چیف نے کہا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں تاخیر آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں پر اثرانداز ہو رہی ہے اور جب تک یہ کوتاہی دور نہیں ہوتی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکے گا اور پائیدار امن ایک خواب ہی رہے گا۔

Pakistan Islamabad Kinderarbeit Straßenverkäufer Mädchen
پنجاب میں بچوں کے اغوا کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیںتصویر: DW/I. Jabeen

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق پنجاب حکومت نے اس بریفنگ کا اہتمام تو بظاہر بچوں کے اغوا کی وارداتوں کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرنے کے لیے کیا تھا لیکن رانا ثنا اللہ کے تفصیلی جواب سے لگتا تھا کہ ان کے مخاطب چوہدری نثار نہیں بلکہ ’کوئی اور‘ ہیں۔

اس سے پہلے پولیس اور پنجاب کے محکمہء داخلہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پولیس کی تفصیلی تحقیقات کے بعد پتہ چلا ہے کہ بچوں کے اغوا میں کوئی منظم جرائم پیشہ گروہ ملوث نہیں ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر گھر سے بھاگ جانے والے بچوں کے عمل کو بھی اغوا کا نام دے دیا جاتا ہے۔

اس موقعے پر پولیس کی طرف سے کی جانے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا گیا کہ 44 فیصد بچے والدین کے سخت رویے کی وجہ سے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں، 21 فیصد حادثاتی طور پر والدین سے بچھڑ جاتے ہیں،سات فیصد خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے اغوا ہو جاتے ہیں، چھ فیصد کو والد یا والدہ ناچاقی کے بعد بغیر اطلاع دیے لے جاتے ہیں، چار فیصد مدرسوں کی سختی کی وجہ سے بھاگ جاتے ہیں، نو اعشاریہ دو فیصد بچے گداگری یا جبری مشقت والوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جبکہ گھر سے بھاگ جانے والے بچوں میں قریب چھ فیصد اسپیشل چلڈرن بھی ہو تے ہیں۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس وقت بچوں کی بازیابی کے لیے پنجاب بھر میں ایک بڑا آپریشن کیا جا رہا ہے اور مزارات ، ریلوے اسٹیشنز، عوامی پارکس اور بس اڈوں پر موجود بچوں کو بازیاب کروا کر ان کے والدین سے ملوایا جا رہا ہے۔ صرف لاہور میں روزانہ تین سے چار بچے بازیاب کروائے جا رہے ہیں۔ 2016 میں بچوں کے اغوا کے حوالے سے پنجاب میں 836، سندھ میں 54، کے پی کے میں 18 اور بلوچستان میں 14 ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔ ان کے بقول پنجاب میں بچوں کے 'اغوا' کے کیسز کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ ایف آئی آر کا آسانی سے یقینی اندراج ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں 104 بچے ایسے ہیں جن کو ابھی تک بازیاب نہیں کروایا جا سکا ہے۔جبکہ پچھلے چند سالوں میں مبینہ طور پر اغوا کیے جانے والے بچوں میں سے نوے فیصد سے زائد بچوں کو بازیاب کروایا جا چکا ہے۔

اس موقعے پر یہ بھی بتایا گیا کہ لاہور کے مختلف علاقوں سے کراچی، پشاور اور کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جب کہ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے علاقے شاہدرہ سے افغانستان کے 11 بچوں کو بازیاب کروا کر افغان حکومت کے حوالے کیا گیا۔

رانا ثنااللہ نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی کہ اغوا کیے جانے والے بچوں کے اعضاء نکال کر فروخت کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے اپیل کی کہ وہ بچوں کے اغوا کے حوالے سے والدین کا خوف دور کرنے کے لیے حکومت کی مدد کریں۔

ان سوالات کے جواب میں کہ حکومتی اعداوشمار کی کریڈبیلٹی کی بنیاد کیا ہے، حکومتی اعدادوشمار میں تضادات کیوں ہیں، رانا ثنا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔