1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمارے ہیرو فقط سیاستدان یا پھر جنگجو ہی کیوں؟

26 جولائی 2021

قدیم یونانی مذہب میں ہیرو کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ وہ ایک عام انسان سے زیادہ مضبوط لیکن ان کے خداؤں سے تھوڑا کم طاقتور تصور کیے جاتے  تھے۔ کچھ کے نام ہم نے بھی سن رکھے ہیں اور ان میں ہرکولیس سب سے زیادہ مشہور ہے۔

https://p.dw.com/p/3y3hp
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

یہ تمام انتہائی قدیم تاریخی کردار ہیں، اس لیے ان کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم تاریخ دانوں گمان ہے کہ یہ سب دراصل انسان ہی تھے۔ لیکن ان کی صلاحیت کو کچھ اس طرح بڑھا چڑھا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جانے لگا کہ وہ یونانی خداؤں کا درجہ تک پا گئے۔ یہی حال مصر کے فرعون کا بھی تھا۔ ایک عام انسان ہونے کے باوجود زمین پر خدا سمجھا جاتا تھا اور اس کے حکم کو مذہبی فریضہ سمجھا جاتا تھا۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا اور یہ سب ہیرو تاریخ کا حصہ بنتے گئے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ لوگ عصری تقاضوں کے مطابق نئے ہیرو بناتے رہے۔ یہ کہیں تو سیاسی لیڈر بن کر سامنے آئے تو کہیں فوجی آمر، کہیں کھیل کے میدان کے کھلاڑی تو کہیں فلمی ستارے۔ ایک وقت تھا، جب ایلوس پریسلے یا مائیکل جیکسن کو ایک عام انسان کی سطح سے بہت اونچا سمجھا جاتا تھا۔ 

یہ تمام مثالیں بتاتی ہیں کہ انسان ہمیشہ سے شخصیت پسند رہا ہے۔ اگر ہم اپنے تعلیمی نصاب کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ زیادہ تذکرہ ان لوگوں کا ہے، جنہوں نے اپنے وقت میں تلوار اٹھائی۔ جیسا کہ محمد بن قاسم، تیمور لنک یا صلاح الدین ایوبی۔ لہٰذا یہی ہمارے ہیرو قرار پائے۔ یہ سن کر بہت سے لوگ مجھے مغربی دنیا کا ایجنٹ ہی قرار دیں گے اور اچھے برے الفاظ سے بھی نوازیں گے لیکن ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ کیا ہم سائنسدانوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں، جتنی کسی ماضی کے فوجی جنرل کو؟ آج بھی دیکھ لیجیے کہ ٹی وی پر ارتغرل کی مقبولیت کتنی زیادہ ہے۔ دوسری جانب کسی سائنسدان یا کسی عالم کی زندگی پر کوئی معیاری ڈرامہ یا تو موجود ہی نہیں یا اگر کسی نے کبھی کوشش بھی کی تو وہ ڈرامہ اتنی مقبولیت حاصل نہیں کر سکا جبکہ جنگی تاریخ پر بننے والے اکثر ڈراموں نے ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی۔

 موجودہ وقت میں دیکھا جائے تو گلوکار بھی پسند کیے جاتے ہیں۔ کرکٹر بھی اپنی شہرت رکھتے ہیں لیکن لوگ انہیں وہ درجہ نہیں دیتے، جو ایک سیاستدان کو دیا جاتا ہے۔ بلکہ سیاست دانوں کو تو پوجنے کی حد تک چاہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سیاسی تنظیم کے سپورٹر کسی صورت اپنی جماعت کی غلطی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے چاہے ان کو کھلی نشانیاں اور ثبوت کیوں نہ نظر آجائیں۔ اب چاہے انہیں مار پیٹ یا کسی سے قطع تعلق ہی کیوں نہ کرنا پڑے، جو سیاسی لیڈر نے کہہ دیا وہ پتھر پر لکیر ہے۔ اس کا غلط عمل بھی ٹھیک ہے کیونکہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔ عوام کے ووٹ سے پاور حاصل کرنے کے بعد اسی عوام کو سڑک پر روک کر ذلیل کیا جاتا ہے۔ صرف اس لیے کہ سیاسی رہنما کا موٹر کیڈ گزر جائے لیکن ایسی برائیاں بھی ہمیں صرف مخالف سیاسی تنظیم میں ہی نظر آتی ہیں۔ اپنے لیڈر کو دوسرے ملک میں بھی محبت کے پیغام پہنچا دیے جاتے ہیں۔

ہماری ذہنی سطح تو یہ ہے کہ ہم اپنے ہی بچوں کی پرورش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور پھر عامل سے پوچھا جاتا ہے کہ کس نے جادو کروا دیا۔ جبکہ گھروں میں بھی کسی ایک شخص یا کسی ایک ہی بچے کو ساری توجہ اور محبت مل رہی ہوتی ہے، جو مسائل کا باعث بنتی ہے۔ یعنی شخصیت پسندی کی ہی وجہ سے ہمارے رشتے بھی پس جاتےہیں۔ یہ شخصیت پسندی ہی ہے، جو ہمیں حق کی آواز بلند کرنے سے بھی روکتی ہے۔ 

 دنیا صحرا میں کاشت کاری کر رہی ہے اور یہاں ہم زرخیز زمین پر بھی وہ نتیجہ حاصل نہیں کر پا رہے۔ تمام وسائل کی دستیابی کے باوجود ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ سورج کی روشنی موجود ہے لیکن ہم اس توانائی سے استفادہ نہیں حاصل کر رہے ۔ تعلیم کا معیار سڑک پر دھواں اڑاتی بس کی مانند ہے اور صحت کا شعبہ بھی بس کسی طرح چل ہی رہا ہے۔

 سائنس میں ترقی اس لئے نہیں کی کہ وہ علوم تو 'یہودیوں نے مسلمانوں‘ سے چھین لیے تھے، اب چھینی ہوئی چیز پر کیا محنت کی جائے، اس لیے اسے بھی چھوڑ دیا۔ اور بحث اس بات پر ہے کہ نواز شریف کرپٹ تھا یا عمران خان سلیکٹڈ۔ کاش بحث اس بات پر ہوتی کہ مصنوعی ذہانت میں پاکستان اب تک خاطر خواہ کامیابی کیوں حاصل نہیں کر پایا؟ لیکن شخصیت پسندی کا یہ عالم ہے کہ لوگ ابھی تک کہتے ہیں ’’کھاتا تھا تو لگاتا بھی تھا۔‘‘

 ہماری دیکھا دیکھی بچوں کا ذہن بھی کسی ایک شخصیت کی پرستش کرنے کے طریقے سے متاثر ہو جاتا ہے۔ اگر بڑوں کی پسند سیاست دان یا جنگجو ہیں تو بچوں کا ہیرو بھی ارتغرل یا کوئی شوبز کی شخصیت ہی ہو سکتی ہے۔ کسی ایک انسان کو پسند کرنا ایک الگ بات ہے لیکن اس کی ہر جائز ناجائز بات کو درست قرار دینا غلط ہے۔  

کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے بچوں کو حق اور انصاف میں فرق سمجھائیں۔ ان کی زندگی میں اگر کوئی آئیڈیل ہو تو ایسا کہ جو ان میں تعلیم اور تحقیق کی جستجو پیدا کرے۔ ہمارا نصاب اور کتب جب تک نفرت کا بیج بوتی رہیں گی، ہم شخصیت پرستی سے باہر نہیں آسکیں گے۔ جب تک بچوں کو کوئی بھی علم ان کے دل میں نفرت ڈالے بغیر نہیں پڑھائیں گے یہ مسئلہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنی فکر اور سوچ کو سیاست سے نکال کر اصل مسائل کے حل کی تلاش پر مرکوز کرنا ہوگا۔ شخصیت پرستی ہمیں اندر سے توڑ دے گی اور پھر نفرت کے سوا کچھ پیدا نہیں ہو سکتا۔