1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمیں آئی ایم ایف کی مزید ضرورت نہیں، اسحاق ڈار

عبدالستار، اسلام آباد2 اگست 2016

پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کو اب آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کے اس بیان کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JaLZ
تصویر: DW/K. H. Faroqi

سیکرٹری وزراتِ خزانہ وقار مسعود نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے قرضے پر انحصار کے خاتمے کو مثبت اور اہم قدم قرار دیا: ’’حکومت معاشی اصلاحات اور دور اندیشانہ مالی اصلاحات کو جاری رکھے گی۔ معاشی راستے میں خطرات کم ہوگئے ہیں اور معاشی منظر نامہ مثبت اشارے دے رہا ہے۔ لہذا مستقبل میں شرحِ نمو بڑھے گی اور روزگار کے زیادہ مواقع زیادہ پیدا ہوں گے۔‘‘


سابق وزیرِ خزانہ اور معاشی و مالی امور کے تجزیہ نگار سلیمان شاہ بھی حکومت کی معاشی پالیسوں کو سراہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومت کے معاشی اقدامات کے بہتر نتائج آرہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اسحاق ڈار کے بیان کا یہ مطلب ہے کہ اب آئی ایم ایف کا پرگرام ختم ہوگیا ہے اور اب پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ شروع ہوگی۔ اس سے اندورنی سرمایہ کاری کا ماحول بہتر ہوگا۔ تاہم وہ بین الاقوامی ادارے جو پاکستان کومعاشی امداد دینا چاہتے ہیں، وہ اِس کی منظوری کے لیے اب بھی آئی ایم ایف کی طرف دیکھیں گے۔ اگر حکومت نے معاشی اصلاحات جاری رکھی توحالات میں مذید بہتری آئے گی۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ ہمارے گردشی قرضے ملک کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہیں گے کیونکہ ہم بجلی بہت مہنگے دام خرید رہے ہیں۔ دوسرے ممالک تین سے چار سینٹ بجلی خرید رہے ہیں جب کہ ہم آٹھ سے دس سینٹ میں خرید رہے ہیں۔ ہمیں یہ رقم ڈالر میں ادا کرنی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہماری IPPs حکومت کے لیے دردِ سر بنی رہیں گی۔ لہذا بجلی پیدا کرنے والے سیکڑ میں اصلاحات کی بہت ضرورت ہے۔ اگر حکومت نے گردشی قرضوں کو قابو نہیں کیا، تو معاشی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔‘‘


معروف معیشت دان اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف بزنس منیجمنٹ کراچی کی ڈائریکڑ ڈاکٹر شاہدہ حکومت کے اس دعویٰ کو شک کی نظر سے دیکھتی ہیں: ’’مجھے حکومت کی کسی بات پر یقین نہیں۔ جب نواز شریف کچھ سالوں پہلے اے طائرِ لاہوتی کا نعرہ لگا رہے تھے تو اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے شرائط طے کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے معیشت کے لیے کیا کیا ہے کہ عوام ان پر اعتبار کریں؟ اِنہوں نے کپاس میں جی ایم بیج متعارف کرائے اور کہا کہ یہ Bull-warm سے متاثر نہیں ہوگا لیکن اس بیج نے کپاس کی پیداوار کا جنازہ نکال دیا، جس سے زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی۔ کپاس کی پیداوار میں اٹھائیس فیصد کمی ہوئی۔ جی ایم بیجوں کو زبردستی کسانوں پرتھوپا گیا اور یہ سب اسحاق ڈار اور اِس حکومت نے کیا۔ بالکل اسی طرح جب نون لیگ کی حکومت نے نجکاری کی بات کی تو کہا کہ نقصان میں چلنے والے اداروں کو فروخت کیا جائے گا لیکن نجکاری کی فہرست میں کئی ایسے ادارے ہیں جو بہت ہی منافع بخش ہیں۔ یہ حکومت ملکی مفاد کا خیال نہیں رکھتی۔ اِنہوں نے پاکستان کی معیشت کوبین الاقوامی کمپنیوں کے لیے کھول دیا ہے، جو امداد کے بہانے ملک کی زراعت کو اور معیشت کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘

بعض ماہرین معیشت اسحاق ڈار کے آئی ایم ایف کے حوالے سے بیان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں
بعض ماہرین معیشت اسحاق ڈار کے آئی ایم ایف کے حوالے سے بیان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’امریکا اور مغربی ممالک کی کمپنیاں امداد کے نام پر کسانوں کو جی ایم فوڈز پیدا کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں غیر ملکی کمپنیاں اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ جیکب آباد میں انہوں نے جی ایم بیج بیچنے کی کوشش کی لیکن کسانوں نے انہیں نہیں خریدا۔ یہ بیج مہنگے ہیں اور ان سے اگنے والے پھلوں یا فصلوں میں بیج نہیں ہوتے۔ ایسی صورت میں آپ کو ہمیشہ مغربی کمپنیوں سے بیج خریدنا پڑیں گے اور آپ ہمیشہ کے لیے ان کے غلام ہوجائیں گے۔ جی ایم فوڈز پر یورپی یونین کے 19ممالک نے پابندی لگائی ہوئی ہے جب کہ روس اور اسکاٹ لینڈ نے بھی اس پر پابندی لگائی ہوئی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف کو حقیقی معنوں میں خیر باد کہنا چاہیے اور دوسرے متبادل ذرائع دیکھنے چاہییں جو دستیاب بھی ہیں اور ہماری معیشت کے لیے نقصان دہ بھی نہیں۔