1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمیں واپس جانے کی اجازت دی جائے، بے گھر قبائلی

فریداللہ خان، پشاور
12 مئی 2017

شمالی وزیرستان کے دتہ خیل اور نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے علاقوں میں واپس جانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے قبائلیوں نے پشاور اور بنوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/2csf6
Pakistan Protest der Heimatvertriebene au Norden Waziristan in Peshawar
تصویر: DW/F. Khan

شمالی وزیرستان کے عالقہ ڈانڈے درپہ خیل سے تعلق رکھنے والے بے گھر افراد کے سربراہ قادر زمان کا کہنا ہے، ‌’’ہم نے عالمی امن کی خاطر گھر بار چھوڑ کر خیموں میں رہنا گوارا کیا اور تین سال تک ڈھائی ہزار سے زیادہ خاندان اپنے ہی ملک میں بے گھر رہے لیکن آج ہماری واپسی میں مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں۔‘‘

ملک کے اندر ہی بے گھر ہونے والے ان افراد کا کہنا تھا کہ جب تک ان کی واپسی کے لئے تاریخ نہیں دی جاتی، تب تک  وہ اسی طرح احتجاج کریں گے اور اس کے اگلے مرحلے میں اسلام آباد کا رخ کیا جائے گا۔

ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کے لئے فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل محمد خالد خان کا کہنا تھا، ’’ابھی ان علاقوں میں لوگوں کو نہیں بھیج سکتے ۔ ان علاقوں کو کلیئر کرانا ابھی باقی ہے جب کہ اس کے بعد ان لوگوں کے لئے بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ ایک جانب سکیورٹی کا ایشو ہے تو دوسری جانب ان علاقوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔‘‘

Pakistan Protest der Heimatvertriebene au Norden Waziristan in Peshawar
تصویر: DW/F. Khan

 ان کا مزید کہنا تھا کہ بے گھر افراد کو ماہانہ بارہ ہزار روپے کے ساتھ ساتھ فوڈ اور نان فوڈ آئٹمز فراہم کی جا رہی ہیں۔  انکا کہنا تھا، ’’شمالی وزیر ستان کے میر علی اور میران سمیت دتہ خیل کے کئی علاقوں کو کلیئر کرانا ابھی باقی ہے اور جونہی یہ علاقے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے صاف کئے جائیں گے ان لوگوں کی واپسی کا عمل شروع ہو جائے گا۔‘‘

فوج کی طرف سے قبائلی علاقوں میں چھپے جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کا اغاز ہوا تو مقامی لوگوں کو نقل مکانی کرنا پ‍ڑی۔ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے ان علاقوں کا بنیادی ڈھانچہ بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ قبائلی علاقوں کے انفراسٹرکچر کے ساتھ انتظامی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

قبائلی اُمور کے ماہر شمس مومند کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’تین عشروں سے قبائلی علاقے حالت جنگ میں ہیں، جس کی وجہ سے پہلے سے پسماندہ ان علاقوں کا انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اب ان علاقوں میں بنیادی سہولیات اور روزگار کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے بعض لوگ واپسی سے کتراتے ہیں لیکن بعض ایسے علاقے ہیں، جہاں کاشت کار اور تجارت اب بھی کی جا رہی ہے۔ ان علاقوں کے لوگ واپس جانے کے لئے بے تاب ہیں کیوں کہ یہاں انہیں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب تو قبائلی عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات کی وجہ سے قبائلی علاقوں کو جلد سے جلد خیبر پختونخوا کاحصہ بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔‘‘