1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم علیحدگی پسند نہیں ہیں، دلائی لامہ

عدنان اسحاق4 دسمبر 2008

دلائی لامہ نے یورپ کے اپنے دورے پر برسلز میں یورپی پارلیمان سے خطاب کے بعد ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اخلاقی بنیادوں پر چین کے پاس حقیقی معنوں میں سُپر پاور بننے کا جواز نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/G9MW
دلائی لامہ نے یورپی یونین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ چین کو لبھانا بند کرے اوریہ انسانی حقوق کے تناظر میں ایک خدمت ہو گی۔تصویر: AP

دلائی لامہ نے کہا کہ ’غیر معمولی فوجی طاقت، آبادی اور مضبوط میعشت‘ کی بنیادوں پر چین سُپر پاور بننے کا مستحق تو ہے، تاہم تبّت میں انسانی حقوق کے ابتر ریکارڑ سمیت دیگر وجوہات کی بناء پر اس کے پاس اخلاقی جواز نہیں ہے۔ دلائی لامہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ یورپ اور چین کے مابین تعلقات میں بہتری، وقت کا تقاضا ہے تاہم تبّت میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہتر ریکارڑ، خود چین کے مفاد میں ہے۔ دلائی لامہ نے تبّت کی خودمختاری کے حوالے سے کہا: ’’ ہر کسی کو اس بات کا علم ہے کہ ہم عوامی جمہوریہ چین کے زیر انتظام ہی وسیع تر بنیادوں پر تبّت کی حقیقی خودمختاری چاہتے ہیں۔‘‘

Der hessische Ministerpraesident Roland Koch mot dem Dalai Lama
نوبل انعام یافتہ دلائی لامہ نے کہا کہ ان کے اس دورے سے قبل چین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا لیکن بعد ازاں اس کے رویے میں کافی تبدیلی آ گئی تھی۔تصویر: AP

سن 1959میں تبّت سے چلے جانے کے بعد دلائی لامہ اس وقت بھارت میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دلائی لامہ نے یورپی دورے پر اپنے تازہ انٹرویو میں چین کے خلاف اُن پرانے الزامات کو ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ چینی جارحیت کے باعث تبّت کے لوگوں کو بندوق اور خوف کے سائے میں زندگی گُزارنی پڑرہی ہے۔

Deutschland China Tibet Dalai Lama in Bamberg
دلائی لامہ اورتبتی عوام کے ساتھ اظہاریکجہتی کے طور پر تیس سے زائد یورپی پارلیمنٹیرینزنے ایک دن کا روزہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: AP

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے یورپی پارلیمان سے خطاب کیا ہو۔ اس سے قبل بھی وہ کئی مرتبہ بیلجئم کے دارلحکومت برسلزمیں یورپی پارلیمنٹ سے خطاب کر چکے ہیں۔آج یورپی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں دلائی لامہ نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ وہ تبت میں ایک علیحدگی پسند تحریک کی قیادت کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ علیحدگی چاہتے ہیں۔ اپنے 20 منٹ کے خطاب میں انہوں نے مزید کہا یہ تبت کے حق میں بہتر ہے کہ وہ چین جیسی بڑی طاقت کے ساتھ رہے۔ انہوں نے کہا :’’ہرکوئی جانتا ہے کہ ہم تبت چین کے زیرانتظام حقیقی اوروسیع بنیادوں پرتبت کی خود مختاری چاہتے ہیں‘‘۔

Der Dalai Lama in Hamburg
دلائی لامہ نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ وہ تبت میں ایک علیحدگی پسند تحریک کی قیادت کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ علیحدگی چاہتے ہیں۔تصویر: AP

ساتھ ہی دلائی لامہ نے یورپی یونین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ چین کو لبھانا بند کرے اوریہ انسانی حقوق کے تناظر میں ایک خدمت ہو گی۔ نوبل انعام یافتہ دلائی لامہ نے کہا کہ ان کے اس دورے سے قبل چین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا لیکن بعد ازاں اس کے رویے میں کافی تبدیلی آ گئی تھی۔ دلائی لامہ نے کہا کہ درحقیقت وہ ایک سماجی ہم آہنگی والے معاشرے کے حامی ہیں اور ہم آہنگی بندوق اورڈر کے سائے میں نہیں پیدا کی جاسکتی۔ یہ صرف ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔

دلائی لامہ اورتبتی عوام کے ساتھ اظہاریکجہتی کے طور پر تیس سے زائد یورپی پارلیمنٹیرینزنے ایک دن کا روزہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس موقع یورپی پارلیمنٹ میں آٹھ سو سفید رنگ کی شالین بھی تقسیم کی گئیں۔ جودلائی لامہ کے خطاب کے وقت بہت سے پارلیمانی ارکان نے پہنی ہوئی تھیں۔

Der Dalai Lama während einer Pressekonferenz in Freiburg
دلائی لامہ نے تبّت کی خودمختاری کے حوالے سے کہا: ’’ ہر کسی کو اس بات کا علم ہے کہ ہم عوامی جمہوریہ چین کے زیر انتظام ہی وسیع تر بنیادوں پر تبّت کی حقیقی خودمختاری چاہتے ہیں۔‘‘تصویر: AP

چین نے دلائی لامہ کے یورپی یونین کے اس دورے پرشدید احتجاج کیا تھا۔ اسی وجہ سے چینی حکام نے گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے ساتھ ہونے والی سربراہی کانفرنس منسوخ کردی تھی۔ اس کے علاوہ بیجنگ حکومت نے صدرفرانسیسی سربراہ نکولا سارکوزی سے دلائی لامہ کی مجوزہ ملاقات پربھی تنقید کی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے مطابق یہ ملاقات چین اور فرانس کے تجارتی تعلقات کو متاثر کرسکتی ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان Liu Jianchao نے کہا کہ چین فرانس کے ساتھ اپنے تجارتی اور دفائی تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اچھے باہمی تعلقات ہی تجارت کے لئے سازگارماحول پیدا کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہی چین نے یورپی کمپینی ائربس کے ساتھ مسافر بردار طیارے خریدنے کی بات چیت بھی منسوخ کردی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ مذاکرات آخری مراحل میں تھے۔

اس وقت کوئی 1400 سو فرانسیسی کمپنیاں چین میں کام کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فرانس چین کو دو سویلین نیوکلئیر پلانٹ کے منصوبوں میں بھی تعاون کرر ہا ہے۔ فرانس اور چین کے مابین اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ گزشتہ برس چین اور فرانس کے درمیان ہونے والی تجارت کا حجم 33,66 ارب ڈالر تھا۔