1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہندو خواتین کے حقوق کا تحفظ، شادی کا نیا قانون پاس

27 ستمبر 2016

پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں میں آج منگل 27 ستمبر کو ایک تاریخی بِل منظور کر لیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کی ایک چھوٹی اقلیت ہندو برادری کو شادی رجسٹر کرانے کا حق حاصل ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Qe6a
پاکستانتصویر: DW/U. Fatima

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس پیشرفت سے اُس قانونی پیچیدگی کا خاتمہ ہو گیا جو ایک ایسے قانون کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی جس کا مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہندو خواتین کے جبری اغوا، ان سے جنسی زیادتی اور مذہب کی جبری تبدیلی جیسے معاملات اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی شادی کو باقاعدہ طور پر عدالت میں ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرف سے یہ بِل 10 ماہ تک غور و خوض کے بعد منظور کیا گیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کے کہ پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ سے یہ بِل کسی مشکل کے بغیر پاس ہو جائے گا۔

Pakistan Karatschi Hochzeitszeremonie
تقسیم ہند کے بعد سے پاکستان میں ہندوؤں کی شادیوں کو رجسٹر کرنے کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا جا سکا تھاتصویر: DW/U. Fatima

190 ملین سے زائد آبادی اور مسلمان اکثریت والے ملک پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی قریب 1.6 فیصد ہے۔ تاہم 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستان میں ہندوؤں کی شادیوں کو رجسٹر کرنے کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا جا سکا تھا۔ پاکستان کی ایک اور اقلیت مسیحیوں کی شادی کے حوالے سے موجود قانون بھی 1870ء میں برطانوی دور اقتدار کا تیار کردہ ہے۔

نئے بِل کے مطابق ہندوؤں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر کی گئی ہے۔ دیگر مذاہب کے افراد کی شادی کے لیے مردوں کی عمر 18 برس جبکہ خواتین کے لیے عمر کی یہ حد 16 سال مقرر ہے۔

اس قانون کے مطابق اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے چھ ماہ تک سزائے قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ یونیسیف کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں 20 سے  24 برس کی عمر کی 21 فیصد خواتین کی پہلی شادی 18 برس یا اس سے بھی کم عمر میں کر دی گئی تھی۔ جبکہ تین فیصد کی 16 سال سے بھی کم عمر میں۔

Pakistan Karatschi Hochzeitszeremonie
نئے بِل کے مطابق ہندوؤں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر کی گئی ہتصویر: DW/U. Fatima

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرا یوسف کے مطابق شادی کا ثبوت موجود ہونے کی صورت میں ہندو خواتین کو تحفظ مل سکے گا، ’’ایک مرتبہ جب شادی رجسٹر ہو جائے گی تو کم از کم ان کے بعض حقوق یقینی ہو جائیں گے۔‘‘

زہرا یوسف کے مطابق بیوہ خواتین کو خاص طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ اپنے شوہر کی وفات کی صورت میں وہ حکومتی سماجی امداد حاصل نہیں کر پاتی تھیں۔ نئے قانون کے مطابق ایک بیوہ ہندو خاتون اپنے شوہر کی وفات کے چھ ماہ بعد دوبارہ شادی کر سکے گی۔ اس کے علاوہ اس قانون میں ہندو خواتین کو 18 برس سے قبل شادی، نظر انداز کیے جانے یا دو بیویوں کی صورت میں طلاق حاصل کرنے کا حق بھی دیا گیا ہے۔