1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہنگری مہاجرین سے متعلق ضوابط کی پاس داری کرے‘

عاطف بلوچ، روئٹرز
28 مارچ 2017

ہنگری میں مہاجرین سے متعلق نیا قانون آج پیر اٹھائیس مارچ سے لاگو ہو گیا ہے، جس کے تحت ملک میں داخل ہونے والے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو سرحد پر ہی شپنگ کنٹینرز سے بنائے گئے مراکز میں روک لیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2a9tO
Serbien Grenze Ungarn Flüchtlinge Zaun
تصویر: picture-alliance/abaca/O. Marques

اس نئے قانون پر اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ انسانی حقوق کی کئی دیگر سرکردہ تنظیموں کی جانب سے بھی تنقید کی گئی ہے، جب کہ متعلقہ یورپی کمشنر نے ہنگری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں یورپی یونین کے قوانین کی پاس داری کرے۔

Ungarn Zaun Grenze Ausbau Serbien
ہنگری نے اپنی سرحد پر جدید باڑ تعمیر کر دی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo/Z.G.Kelemen

یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس آوراموپولوس اس موضوع پر گفت گو کے لیے ہنگری کے ماہرین سے بھی ملاقات کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ ممالک سے ہجرت کر کے آنے والے پناہ کے متلاشی افراد کو یوں قید کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ہنگری میں آج منگل کے روز سے نافذ ہونے والے اس نئے قانون کے تحت ملکی سرحدوں پر باڑ کی تنصیب کے ساتھ ساتھ ملک میں داخل ہونے والے سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کی حوصلہ شکنی کے لیے انہیں سرحد پر ہی روکنے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔ اس حوالے سے سربیا اور کروشیا کے سرحد پر شپنگ کنٹینروں کی مدد سے حراستی مراکز بنائے گئے ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے ہنگری کے ذریعے یورپی یونین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔

یورپی کمشنر برائے مہاجرت آوراموپولوس نے منگل کے روز ہنگری کے حکام سے ملاقات کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ہم نے ماہرین کے ساتھ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ہنگری میں نافذ کیے گئے قوانین یورپی ضوابط کی پاس داری کرتے ہیں۔‘‘

ان کاکہنا تھا کہ یورپی ضوابط تمام رکن ریاستوں کی جانب سے مشترکہ طور پر منظور کردہ ہیں اور ان کی تکریم کی جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا، ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواستوں سے متعلق عمل اور ساتھ ہی ساتھ اس کے غلط استعمال کے انسداد کو دیکھتے ہوئے شفاف انداز سے فیصلے کیے جانا چاہییں۔‘‘