1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنگری کے نوبل انعام یافتہ ادیب امرے کیرٹیش انتقال کر گئے

ماری ٹوڈس کینو / مقبول ملک31 مارچ 2016

ہنگری کے عہد ساز ادیب اور نوبل انعام یافتہ مصنف اِمرے کَیرٹیش طویل علالت کے بعد چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ چودہ برس کی عمر میں بدنام زمانہ نازی اذیتی کیمپ آؤشوِٹس میں قید بھی رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/1INJN
Deutschland Nobelpreisträger Imre Kertesz in Berlin
اِمرے کَیرٹیشتصویر: Reuters/M. Mettelsiefen

اِمرے کَیرٹیش Imre Kertész کی عمر اس وقت صرف 14 برس تھی، جب نازی جرمن دور میں گرفتاری کے بعد انہیں بہت سے دیگر قیدیوں کے ہمراہ آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے اذیتی کیمپ میں پہنچا دیا گیا تھا۔ ہنگری میں متوسط طبقے کے ایک یہودی گھرانے سے تعلق رکھنے والے کَیرٹیش کو بعد ازاں آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ سے بُوخن والڈ کے نازی مشقتی کیمپ میں پہنچا دیا گیا تھا۔ 1945 میں پیش قدمی کرتے ہوئے اتحادی فوجی دستوں نے انہیں بہت سے دوسرے قیدیوں کے ہمراہ بُوخن والڈ کے اسی کیمپ سے اس وقت رہائی دلائی تھی، جب ان کی عمر محض 15 برس تھی۔

بُوخن والڈ کیمپ سے اپنی رہائی کے بعد اِمرے کَیرٹیش واپس ہنگری چلے گئے تھے، جہاں ان کی ذاتی زندگی کے المناک واقعات اور نازی دور میں یہودی قتل عام یا ہولوکاسٹ نے ان کی تحریروں میں مرکزی جگہ پائی۔ کَیرٹیش کی مشہور ترین تصنیف ’بےقسمت‘ یا Fateless ہے، جس پر انہوں نے 13 برس تک کام کیا تھا۔ کَیرٹیش کا یہ ناول رونگٹے کھڑے کر دینے والی اور ہولوکاسٹ کے موضوع پر انتہائی زیادہ تکلیف اور اذیت کی مظہر ادبی تخلیقات میں شمار ہوتا ہے۔

’تاریک تہہ خانے کی گہرائی‘

اِمرے کَیرٹیش کے اس ناول کی سب سے اہم بات اس کے مرکزی کردار کا بے قصور ہونا ہے، جو 14 سال کی عمر کے ایک لڑکے کے طور پر آؤشوِٹس اور بُوخن والڈ کے اذیتی کیمپوں میں اپنی حراست کی داستان بیان کرتا ہے۔ اس ناول کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا مرکزی کردار، جس کے لیے کَیرٹیش نے ’میں‘ یا واحد متکلم کا صیغہ اپنایا، نازی اذیتی کیمپوں میں اپنی طرف سے ’سب کچھ ٹھیک ٹھیک کرنا‘ چاہتا ہے، لیکن اسے اس جان لیوا حقیقت کا دراصل کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا، جو فاقہ زدہ انسانی ڈھانچوں اور گیس چیمبرز کی صورت میں اس کے ارد گرد کے ماحول میں پائی جاتی ہے۔

اِمرے کَیرٹیش نے ایک بار اپنے اسی ناول کے بارے میں کہا تھا، ’’میں نے یہ ناول ایک ایسے شخص کے طور پر لکھا جو ایک گہرے اور تاریک تہہ خانے کی دیواروں کو چھو کر باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہو۔‘‘ کیا اِمرے کَیرٹیش کی تخلیقات کا نمایاں پہلو ان کے خود نوشتہ سوانحی زاویے تھے؟ اس بارے میں کَیرٹیش نے ہمیشہ کہا تھا، ’’میں چاہتا ہوں کہ میری ادبی تخلیقات کو میری خود نوشت سوانح نہ سمجھا جائے۔ میں جو لکھتا ہوں، وہ میں نہیں ہوں۔ یہ صرف میری ذات کا ایک امکان ہے۔‘‘

Imre und Magda Kertész 2012
اِمرے کَیرٹیش اور ان کی اہلیہ ماگڈا کی 2012 میں لی گئی ایک تصویرتصویر: imago/Wolf P. Prange

اِمرے کَیرٹیش کی زندگی کے تجربات صرف نازی دور کے مظالم ہی پر مبنی نہیں تھے۔ انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سٹالن نواز آمریت کا دور بھی دیکھا تھا اور ہنگری میں 1956 کی بغاوت کے بعد کا کمیونسٹ دور حکومت بھی۔

ادب کا نوبل انعام

اِمرے کَیرٹیش کی ایک شہری اور ایک ادیب کے طور پر آزادیاں 1956 کے بعد سے محدود کر دی گئی تھیں۔ بعد میں انہوں نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’’میں اشتراکی دور میں ہر روز یہ سوچتا تھا کہ خود کشی کر لوں۔‘‘ کَیرٹیش کو بین الاقوامی شہرت 90 کی دہائی میں حاصل ہوئی تھی۔ 2002 میں انہیں ان کے ادبی کیریئر کے عروج پر ادب کے نوبل انعام نوازا گیا تھا۔

ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد کَیرٹیش کئی سال تک جرمنی میں بھی مقیم رہے تھے۔ 2012 میں جب وہ پارکنسن سنڈروم کا شکار ہو چکے تھے، وہ اپنی دوسری اہلیہ ماگڈا کے ہمراہ واپس ہنگری چلے گئے تھے۔ ہنگری میں وہ عوامی منظر نامے سے ہٹ کر بوڈاپیسٹ میں قیام پذیر رہے تھے۔ اب بوڈاپیسٹ ہی میں طویل علالت کے بعد اِمرے کَیرٹیش کا انتقال ہو گیا ہے۔

گہرے تاریک تہہ خانے میں بند انسان کو باہر نکلنے کا راستہ مل گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں