1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یاداشت روزانہ تشکیل نو کے مرحلے سے گزرتی ہے

30 مئی 2011

امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے شعبہ نفسیات سے منسلک پروفیسر الزبتھ لوفٹس ایک طویل عرصے پر محیط ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ یاداشت نہ صرف محرک اثر رکھتی ہے بلکہ یہ تشکیل پذیر ہوتی ہے۔

https://p.dw.com/p/11QhW
امریکی ماہرین کے مطابق دماغ کے اندر یاداشت کا خانہ ہر روز تبدیلیوں سے گزرتا ہے

پروفیسر الزبتھ لوفٹس کا تعلق کیلیفورنیا کی یونیورسٹی کے نفسیات کے شعبے کے علاوہ علم جرائم اور علم قانون کے شعبوں سے بھی ہے۔ ان کی تحقیق کا مرکزی موضوع ہمیشہ سے ’ یاداشت‘ رہا ہے۔ انہوں نے 70 کے عشرے میں یاداشت کے بارے میں ایک تجرباتی مطالعہ کیا۔ اس میں شریک افراد کو ٹریفک حادثات کے نقلی مناظر دکھائے گئے۔ اس کے بعد ان افراد سے حادثات کے واقعات کی ترتیب کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ اس تجربے میں شامل افراد کی طرف سے ان سوالات کے جتنے بھی جوابات سامنے آئے اُن سے یہی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایک ہی حادثے کا سین دیکھنے والے مختلف گواہوں سے جب یہ پوچھا گیا کہ انہوں نے کیا دیکھا تو ہر ایک کا جواب ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ معنی خیز سوالات کے علاوہ بھی گواہوں کے بیانات میں غلطی کی شرح بہت زیادہ تھی۔

Deutschland Wissenschaft Forschung Medizin Forscher sehen Alzheimer als Hirnentwicklungsstörung
جرمنی میں ذہنی عارضے الزائمر کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق ہو رہی ہے۔تصویر: picture alliance/dpa

پروفیسر لوفٹس کا یہ تجربہ اپنی نوعیت کا پہلا تھا کیونکہ اس کے نیتجے میں پہلی بار اس امر کا اندازہ ہوا کہ بیرونی عناصر کس طرح اپنی رائے دیتے ہوئے گواہی کو توڑ مروڑ سکتے ہیں۔ پروفیسر لوفٹس نے 250 عدالتی کارروائیوں میں بذات خود حصہ لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گواہوں سے پوچھ گچھ کی تکنیک میں واضح تبدیلی آئی۔

ماہر نفسیات پروفیسر الزبتھ لوفٹس نے یاداشت کے بارے میں طویل عرصے تک جو تجربات کیے اُن کی روشنی میں انہوں نے ایک اور کمال حاصل ہوا جو اُن سے قبل دوسرے ماہرین کے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا تھا۔ مثلاً یاداشت میں اس حد تک تبدیلی لانے کا عمل کہ ذہن کے اندر ایسے واقعات کے نقوش ابھرنے لگیں جو کبھی رونما ہی نہیں ہوئے۔

1992 ء میں پروفیسر لوفٹس نے والدین کی طرف سے بتائے گئے مختلف واقعات کی تفصیلات کی روشنی میں یاداشت کے بارے میں ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے اس تجربے میں شامل افراد سے پوچھا کہ اگر وہ بچپن میں کسی شاپنگ سینٹر میں گم ہو جاتے ان کی ذہنی حالت کیسی ہوتی۔ وہ کیا محسوس کرتے؟

ایک سال بعد پروفیسر الزبتھ لوفٹس نے اس تجربے میں حصہ لینے والے تمام افراد کو بچوں کی ایسی تصاویر دکھائیں جو حقیقی نہیں تھیں، تاہم ان افراد نے اس امر کا یقین کر لیا کہ وہ ڈزنی لینڈ میں بگس بنی سے مل چُکے ہیں، جبکہ یہ ممکن ہی نہیں کیوں کہ بگس بنی ڈزنی لینڈ میں ہو ہی نہیں سکتا، یہ تو امریکہ کی فلم اور ٹیلی وژن انڈسٹری سے تعلق رکھنا والی معروف کمپنی ’وارنر برادرز‘ کا ایک معروف کردار ہے۔

Junges Mädchen als Opfer von häuslicher Gewalt Schlagworte Menschen, Opfer, traurig, Pädophilie, Waise, Straße, Mädchen, Sorge, Anonymität, deprimiert, Emotion, verzweifelt, Teddybär, schämen, Kind, Einsamkeit, Trauer, einsam, Psyche, Teddy, Mißbrauch, anonym, Emotionen, Angst, häusliche Gewalt, Furcht, Mißbrauchsopfer, mißbraucht, Kriminalität, sexuelle Gewalt, Trauma, Jugendlicher, Scham, Kummer, allein, Verzweiflung, Bürgersteig, sexueller Mißbrauch, Gewalt, Leid, Spielzeug, vergewaltigt
بچقن میں ذہنی اور جسمانی صدموں سے گزرنے کے بعد ان خوفناک یادوں کے نقوش طویل عرصے تک اذہان میں محفوظ رہتے ہیںتصویر: picture alliance/Photoshot

پروفیسر الزبتھ لوفٹس کے یاداشت سے متعلق تجربات کی روشنی میں ماہرین نفسیات بچپن میں صدمے کا شکار ہونے والوں کے اذہان پر پائے جانے والے ان خوفناک نقوش کو مٹانے اور تکلیف دہ یادوں کو بھلانے کے طریقوں کے بارے میں مزید ریسرچ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں Propranolol نامی دوا جو علاج قلب کے لیے استعمال کی جاتی ہے، کار آمد ثابت ہوئی ہے۔

ایمسٹرڈیم یونیورسٹی کی ماہر نفسیات ’میرل کِنٹ‘ نے متعدد مریضوں پر Propranolol کا تجربہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دوا چند مخصوص واقعات کے نقوش کو اذہان سے مٹانے اور بعض کیسس میں ان واقعات کے بارے میں پائے جانے والے جذبات میں تبدیلی کا ذریعہ بنی ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں