1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یروشلم کے لیے اعلان بظاہر کھوکھلا دکھائی دیتا ہے، تبصرہ

عابد حسین
10 دسمبر 2017

امریکی صدر ٹرمپ نے چھ دسمبر کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا۔ ٹرمپ نے اس اعلان کو حقیقت کا اعتراف قرار دیا۔ ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار دانا راگیو کے خیال میں یہ پیش رفت جارحانہ دکھائی دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/2p6Aw
Indonesien Proteste gegen US-Entscheidung zu Jerusalem
تصویر: Reuters/D. Whiteside

دانا راگیولکھتی ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد فلسطینی علاقوں میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہونے سے مجموعی صورت حال میں ابتری پیدا ہو گئی ہے۔ حماس نے ایک نئی مزاحمتی تحریک انتفادہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ غزہ سے اسرائیل پر راکٹ داغنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جوابی اسرائیلی کارروائی میں کم از کم چار فلسطینی مارے گئے ہیں۔

امریکی فیصلہ: ایک سو برس بعد فلسطینیوں پر ایک اور کاری وار

غزہ، ویسٹ بینک اور یروشلم میں مظاہرے، دو فلسطینی ہلاک

انتفادہ کیا ہے؟

ٹرمپ کا فیصلہ: پاکستان میں غم و غصے کی لہر

رواں مہینے کے اختتام پر نائب امریکی صدر مائیک پینس خطے کے دورے پر ہیں اور اُن سے کئی اہم افراد نے ملاقاتیں کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انکار کرنے والوں میں فلسطینی لیڈر محمود عباس بھی شامل ہیں۔راگیو کے بقول اس انکار سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سفارتی عمل میں دراڑیں پڑنی شروع ہو گئی ہیں۔ بظاہر ابھی تک کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ٹرمپ اس اعلان سے کیا چاہتے تھے۔

Jerusalem-Konflikt  Proteste in Gaza
زہ سے اسرائیل پر راکٹ داغنے کا سلسلہ شروع ہوا اور جوابی اسرائیلی کارروائی میں کم از کم چار فلسطینی مارے گئےتصویر: picture-alliance/dpa/Wissam Nassar

مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے ایک حقیقت کا اعتراف کیا ہے لیکن اس سے سب سے زیادہ متاثر عام فلسطینی ہوں گے۔ راگیو کے تبصرے کے مطابق اِنہیں ایک طرف فلسطینی قیادت مظاہروں کی ترغیب دے گی تو دوسری جانب اسرائیلی سکیورٹی اہلکار اُن کے درپے ہوں گے۔ خود ٹرمپ ان ساری تکالیف اور مصائب سے دور ہیں۔ اسرائیل کے ریزرو فوجی بھی اگلے ماہ و ایام کے دوران فوج میں طلب کیے جانے اطلاع پر تذبذب کا شکار ہو چکے ہیں۔

ٹرمپ کے اعلان کے خلاف مسلم اکثریتی ممالک میں مظاہرے

ابھی تک ٹرمپ کے اعلان کے بعد عالمی ردعمل کے ساتھ ساتھ کئی ملکوں میں امریکا مخالف جلوسوں کے ساتھ ساتھ احتجاجی ریلیاں بھی نکالی جا چکی ہیں۔ اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کا یروشلم سے متعلق اعلان کھوکھلا اور بناوٹی ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس اعلان سے حالات میں بہتری ممکن نہیں اور یروشلم کی حیثیت میں بھی کوئی اضافہ ظاہر نہیں ہو گا۔

اپنے تبصرے میں دانا راگیو نے یہ سوال اٹھایا  ہے کہ کیا ٹرمپ حقیقت میں مشرق وسطیٰ میں امن کے متمنی ہیں؟ لیکن ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔ ضروری تھا کہ وہ امن کے راستے کی کچھ دوسری رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔ ان میں نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری، سن 1967 کا سرحدی مسئلہ اور سب سے مشکل سوال مہاجرت پر مجبور فلسطینیوں کی اپنی سرزمین پر واپسی سب سے اہم ہیں۔ راگیو کہتی ہیں کہ  ٹرمپ ان  کے حوالے سے مثبت اقدام کرتے تو شاید بہتر ہوتا۔

یروشلم کے معاملے پر یورپی رد عمل