1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی صدر کا اقتدار کو خیر باد کہنے کا فیصلہ

24 نومبر 2011

عرب ملک یمن کے صدر علی عبداللہ صالح نے خلیجی تعاون کونسل کی جانب سے پیش کردہ منتقلی اقتدار کے فارمولے کو تسلیم کرتے ہوئے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس سے قبل معاہدے پر دستخط کرنے سے آخری وقت پر وہ منکر ہو جاتے تھے۔

https://p.dw.com/p/13GE3
صالح ڈیل پر دستخط کرتے ہوئےتصویر: dapd

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شاہ عبداللہ کے پہلو میں بیٹھ کر یمنی صدر نے خلیجی تعاون کونسل کی جانب سے پیش کردہ منتقلیء اقتدار کی ڈیل پر دستخط کیے۔ ڈیل پر دستخط کی تقریب کا مقام ریاض شہر میں الیمامہ محل اور میزبان شاہ عبداللہ تھے۔ اس ڈیل کو امریکی حمایت بھی حاصل ہے۔ ڈیل پر دستخط کے وقت صدر صالح حوصلہ مند رہتے ہوئے مُسکرا رہے تھے۔ اس ڈیل پر صالح تین بار قبل بھی دستخط کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے لیکن عین وقت پر وہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ پیدا کر دیتے تھے۔

ڈیل پر دستخط کے بعد صدر صالح کا کہنا تھا کہ ڈیل پر دستخط کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ نیک نیتی اہم ہے۔ صالح کے مطابق اب خلوص کے ساتھ یمن کی تعمیر نو کا عمل شروع ہونا ضروری ہے کیونکہ گزشتہ دس ماہ سے ملک ایک بحران سے گزر رہا ہے۔ ڈیل سے یمنی صدر کے تینتیس برس سے جاری اقتدار کا جلد خاتمہ ہو جائے گا۔

Demos Im Jemen Flash-Galerie
یمن میں صالح مخالفین نے ڈیل کی مخالفت کی ہےتصویر: DW

ڈیل کے تحت اگلے نوے دنوں کے دوران یمن میں عام پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس کے بعد ایک عبوری حکومت دو سال کے لیے معاملات حکومت کو کنٹرول کرے گی۔ ڈیل کے تحت یمنی صدر کو عدالتی مقدمات سے استثناء حاصل ہو گا اور یمن کی سیاست سے باہر بھی نہیں رہیں گے۔ اس طرح صالح جلا وطنی کی زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ الیکشن تک نائب صدر عبدالرب منصور ہادی عبوری صدر ہوں گے۔

ڈیل پر دستخط کے اعلان کے فوری بعد یمن کے دارالحکومت صنعا میں ہزاروں مظاہرین نے صدر کو مقدمات سے استثناء دیے جانے کے خلاف نعرہ بازی کی اور صالح کو موت کی سزا دینے کے نعرے لگاتے رہے۔ صنعا میں مظاہروں کے منتظم ولید العماری نے بھی ڈیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ یمنی عوام کے مفاد کے مخالف ہے۔ العماری نے مزید مظاہروں کا اعلان بھی کیا۔

امریکی صدر اوباما نے ڈیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ یمنی عوام کے ساتھ ہمیشہ کھڑا ہو گا اور ان کی ہر ممکن حمایت جاری رکھی جائے گی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے مطابق یمن کے اقتدار سے علیحدہ ہونے والے صدر علی عبداللہ صالح علاج کی غرض سے امریکی شہر نیو یارک جائیں گے۔ بان کی مون نے بھی صدر صالح کی جانب سے اقتدار چھوڑ دینے کی تصدیق کی ہے۔ تین جون کے روز صدارتی محل میں زخمی ہونے کے بعد یمنی صدر سعودی عرب میں علاج معالجے کے لیے دو تین ماہ موجود رہے تھے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ سکیورٹی کونسل اگلی پیر کو یمن میں ہونے والی پیش رفت پر بحث کرے گا۔

Flash-Galerie Frauen Demonstration in Sanaa
یمن میں صالح کی مخالفت اور مظاہرین کی حمایت میں خواتین بھی متحرک تھیںتصویر: DW

عرب دنیا کے معاملات پر نگاہ رکھنے مبصرین کے خیال میں یمن میں صدر صالح کے جانے کے بعد اقتدار کی رسہ کشی میں اضافہ یقینی ہے۔ اس میں جمہوریت پسندوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں اور ان کے پہلو میں صالح کا بیٹا اور بھتیجا بھی اقتدا ر پر قابض ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ صالح کا بیٹا انتہائی تربیت یافتہ فوجی بٹالین کا کمانڈر بھی ہے۔ مبصرین کے خیال میں ڈیل ایک بحران کا خاتمہ ضرور ہے لیکن کئی دوسرے بحرانوں سے یمن نبرد آزما ہے۔

عرب دنیا میں عوامی تحریکوں کے نتیجے میں طویل اقتدار سے فارغ ہونے والے یمن کے صدر علی عبداللہ صالح چو تھے حکمران ہیں۔ ان سے قبل مصر کے صدر حسنی مبارک، تیونس کے زین العابدین بن علی اور لیبیا کے معمر القذافی اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں