1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلیمان کی 50 ویں سالگرہ

19 مارچ 2008

50 سالہ یورپی انضمام کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے ، تو واقعی حیرانی ہوتی ہے ، کہ کس طرح سے آزاد اور خودمختار ملکوں نے قانون سازی کا حق ایک غیر قومی پارلیمان کو دے رکھا ہے ۔

https://p.dw.com/p/DYDW
تصویر: AP

50 سال قبل اس کا آغاز بڑے سادہ انداز میں ہوا تھا ۔مختلف ممالک اپنے جن ممبران کو یہاں بھیجا کرتے تھے ان کی سرگرمیاں صرف بحث و مباحثے تک ہی محدود تھیں ۔ آج یہ براہ راست منتخب شدہ یورپی پارلیمان ہے۔ اس کے ممبران کی تعداد 785 ہے اور اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوری پارلیمان کا درجہ حاصل ہے ۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اختیارات کا دائرہ وسیع ترہوتا چلا گیا ۔ اگر اصلاحات پر مبنی معاہدہ Lissabon اگلے سال سے لاگو ہو جاتا ہے ، تو یورپی پارلیمان کو متعدد شعبوں میں فیصلہ کرنے کے مزید اختیارات حاصل ہو جائیں گے ۔

یقیناً یہ ایک اچھی بات ہے کہ 500 ملین یورپی شہریوں کو براہ راست ایک منتخب شدہ ادارے میں نمائندگی حاصل ہے ۔ لیکن یہ بات مدنظر رکھی جانی ضروری ہے کہ قانون سازی کے عمل میں یورپی پارلیمان کی حیثیت ایوان زیریں کی سی ہے ۔ اصل کردار ایوان بالا یعنی وزارتی کونسل کا ہے ۔ وزراتی کونس 27 رکن ملکوں کے حکومتی نمائندوں پر مشتمل ہے ۔ نئی قانون سازی کی تجویز کا حق یورپی کمیشن کو حاصل ہے ۔ جسے یورپی یونین کی اعلیٰ سیاسی انتظامیہ کہا جا سکتا ہے ۔ یورپی پارلیمان کے سامنے جو قانونی مسودہ پیش کیا جاتا ہے اس پر وہ اپنی صرف رائے دے سکتی ہے ۔ بہت سے پارلیمانی ممبران اس طریقہ کار میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

بہر کیف 50 سالہ یورپی انضمام کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو واقعی حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح سے آزاد اور خودمختار ملکوں نے قانون سازی کا حق ایک غیر قومی پارلیمان کو دے رکھا ہے۔ آج یورپی یونین کے رکن ملکوں کے زیادہ تر قوانین برسلز کے راہنما اصولوں کی روشنی میں تیار کئے جاتے ہیں ۔تاہم یورپی پارلیمان کے بارے میں رائے دہندگان کی دلچسپی حیران کن حد تک کم ہے ۔اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہو سکتی ہے کہ برسلز کے پارلیمانی ممبر قومی پارلیمانی ممبران کے مقابلے میں غیر مشہور ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ وہاں سیاسی ڈرامے اور تنازعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

پارلیمان کے اندر نہ تو کوئی حکومتی حزب ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا کوئی ٹولہ ۔ کسی بھی مسلے پر اکثریتی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ مہینے میں صرف ایک بار یورپی پارلیمان کا اجلاس فرانسیسی شہر Straßburg میں ہوتا ہے جبکہ اس کا باقی وقت برسلز میں گزرتا ہے ۔ چنانچہ اجلاس کے موقع پر سینکڑوں افراد ادھر سے اُدھر رواں دواں رہتے ہیں ۔ جو وقت اور پیسے کا ضیاع ہے ۔ بہتر ہے کہ اسے مستقل طور پربرسلز میں ہی رہنے دیا جائے ۔ لگتا نہیں ہے کہ اگلے 50 برسوں میں کبھی ایسا ہو پائے گا ۔