1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلیمان کے انتخابات، نتائج اور محرکات

8 جون 2009

يورپی پارليمابی انتخابات اتوار کے روز پورے ہو گئے۔ ان ميں يورپ کے متوسط طبقے کی نمائندہ اور قدامت پسند جماعتوں کو نماياں کاميابی حاصل ہوئی ہے۔ ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔ اس بارے ميں بَیرنٹ رِیگرٹ کا لکھا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/I5kP
جرمنی میں چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت آگے رہیتصویر: AP

يورپی پارليمان کے انتخابات ميں ووٹ دينے والوں کا مجموعی تناسب 50 فيصد سے بھی کم رہا۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ ووٹ ڈالنے کے اہل يورپی شہريوں ميں سے آدھےسے بھی زيادہ ووٹ دينے نہيں گئے۔ اسی لئے ان انتخابات ميں عوامی شرکت ريکارڈ حد تک کم رہی۔

مشرقی يورپ ميں صرف ہر پانچويں ووٹر نے اپنا حق رائے دہی استعمال کيا۔ يورپی يونين کے جمہوری طور پر منتخب کئے جانے والے اس واحد ادارے میں اتنی کم عوامی دلچسپی پریشان کن ہے۔

يورپی يونين کے 27 رکن ملکوں کی، قومی حدود سے بالاتر یہ پارليمنٹ دنيا بھر ميں يکتا نوعيت کی ہے۔ تاہم ايسا معلوم ہوتا ہے کہ يورپي شہریوں کو اس يکتا نوعيت کے موقع سے کوئی خاص دلچسپی نہيں ہے۔ اس صورتحال کے ذمے دار صرف کاہل ووٹر ہی نہيں بلکہ يورپی سياستدان بھی ہيں جن کا اس عمل ميں بڑا ہاتھ ہے۔

EU Wahlen zu EU Parlament in Brüssel Pressezentrum
ووٹ دينے والوں کا مجموعی تناسب 50 فيصد سے بھی کم رہاتصویر: AP

پہلے کی طرح اب بھی ستائيس قومی انتخابی مہمات ہی ہوتی ہيں اور کوئی ايسی انتخابی مہم نظر نہيں آتی جو تمام رکن ملکوں ميں پھيلی ہوئی ہو۔ يورپی سياستدان اکثر برسلز کی يورپی سياست کو برا بھلا کہتے رہتے ہيں حالانکہ يہی سياستدان خود بھی يونين کے فيصلوں ميں شريک ہوتے ہيں۔

مشرقی يورپ کے سابق کميونسٹ ممالک ميں جہاں اب جمہوريت رائج ہے، صورتحال بد ترين ہے۔ وہاں ابھی تک يہ شعور پيدا نہيں ہوا کہ يورپی پارليمان زندگی کے تمام ممکنہ شعبوں کے لئے کس قدر اہم ہے۔ اس طرح يورپی پارليمنٹ کے انتخابات ميں اب تک موجود یہ رجحان برقرار ہے کہ چند کے علاوہ تمام برسر اقتدار حکومتوں کو سزا کے طورپر ووٹ نہيں دئے جاتے يا لوگ ووٹ ڈالنے ہی نہيں جاتے۔

کل ختم ہونے والے يورپی پارليمانی انتخابات ميں موجودہ سياسی صورتحال کو برقرار رکھنے کے حق ميں ووٹ دئے گئے۔ قدامت پسند اور متوسط طبقے کی جماعتوں کو کاميابی حاصل ہوئی ہے۔ سوشل ڈيموکريٹس برسلز کی اس پارليمنٹ ميں دوسری بڑی طاقت رہيں گے اور ترقی پسند تيسرا بڑا پارليمانی دھڑا ہوں گے۔

اگرچہ انفرادی طور پر کئی ملکوں ميں يورپی يونين کے مخالفين اور دائيں بازو کے انتہا پسندوں کو بھی توجہ ملی ہے تاہم يورپی پارليمنٹ ميں ان کو کوئی خاص مقام حاصل نہيں ہوا ہے۔ اگر وہ اپنا ايک مشترکہ پارليمانی حزب بنا ليں، تب بھی انہيں کوئی خاص سياسی اثر حاصل نہيں ہو سکے گا۔

يورپی يونين کے رکن سب سے بڑے ملک جرمنی ميں بھی قومی دلچسپی کے موضوعات پر ہی توجہ مرکوز رہی۔ مجموعی طور پر ان یورپی انتخابات ميں اصل ہار يورپی يونين کے نظريے کی ہوئی ہے کيونکہ ووٹروں نے یورپی سياست سے بہت کم دلچسپی ظاہر کی ہے۔

تبصرہ : بَیرنٹ رِیگرٹ / شہاب احمد صدیقی

ادارت : مقبول ملک