1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین سے تعلقات پر نظر ثانی ضروری، ترک صدر ایردوآن

15 اپریل 2017

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا ارادہ ہے کہ وہ سولہ اپریل کے ریفرنڈم کے بعد حکومتی ارکان کا اجلاس بلا کر انقرہ کے یورپ کے ساتھ آئندہ تعلقات پر نظرثانی کریں گے۔ اس ریفرنڈم کے ذریعے ایردوآن صدارتی اختیارات میں اضافہ چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2bHAa
Türkei | Erdogan wirbt für Referendum auf einer Veranstaltung in Konya
تصویر: REUTERS/U. Bektas

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کو بتایا کہ ترکی کی یورپی یونین میں ممکنہ شمولیت کے عمل کو بلاضرورت مؤخر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ترکی کسی کے لیے قربانی کا بکرا نہیں بنے گا۔ ہر کسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا مقام کیا ہے۔‘‘

ترکی ساٹھ کی دہائی سے یورپی یونین میں شمولیت کا خواہش مند ہے تاہم اس حوالے سے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز سن 2005 میں ہوا تھا۔ لیکن یہ عمل کئی معاملات اور اختلافات کے باعث انتہائی سست روی کا شکار ہے۔

ایردوآن کا امتحان، سولہ اپریل کا ریفرنڈم

’مجھے آمر کہو گے تو میں نازی کہوں گا‘، ایردوآن

’بات حد سے گزر چکی ہے، ایردوآن کا جرمنی آنا قبول نہیں‘

اتوار سولہ اپریل کے ریفرنڈم کے لیے سیاسی مہم کے دوران ترک وزراء کو جرمنی اور ہالینڈ میں ترک ووٹروں سے خطاب کی اجازت نہ دینے کے معاملے پر یورپ اور ترکی میں کشیدگی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اس تناظر میں ایردوآن یورپی رہنماؤں کے خلاف بہت سخت کلمات بھی ادا کر چکے ہیں۔

ترک وزیر برائے یورپی یونین عمر چیلک نے اس ریفرنڈم کے بعد ترکی کے ساتھ مستقبل کے تعلقات پر گفتگو کرنے کی خاطر ایک سمٹ کی تجویز دی ہے۔ جمعے کے دن انہوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ترکی اور یورپ کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں اور اس صورتحال میں فریقین کو آپس میں مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔

ترکی میں کل بروز اتوار منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں ملکی آئین میں تبدیلی آئے گی اور ملک میں پارلیمانی کی بجائے صدارتی نظام رائج ہو جائے گا۔ وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا اور صدر کا انتخاب براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے ہو گا۔ سربراہِ مملکت کے طور پر صدر ہی حکومتی انتظامیہ کا سربراہ بھی ہوا کرے گا۔

Türkei Istanbul  Refenrendum Werbebanner Erdogan
تعدد جائزوں کے مطابق عوام کی مطلوبہ پچاس فیصد تعداد اس کے حق میں فیصلہ دے دے گیتصویر: picture-alliance/dpa/E. Gurel

’ترکی آمریت کی راہ پر گامزن نہیں‘

ترکی میں آئینی ریفرنڈم: حقائق، جو آپ کو جاننے چاہییں
ایردوآن کا میرکل پر ’ذاتی حملہ‘، ترک جرمن تنازعہ شدید تر

یوں صدر کو متعدد اختیارات مل جائیں گے، جن میں بجٹ کے مسودے کی تیاری کے ساتھ ساتھ حکومتی وُزراء اور ججوں کی تقرری اور اُن کی سبکدوشی کے اختیارات بھی شامل ہیں۔ آج کل ترکی میں صدر غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن آئندہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ بھی وابستہ ہو سکے گا۔

گویا ایک طرح سے یہ ریفرنڈم صدر رجب طیب ایردوآن کی ذات پر ہے۔ وہ 2005ء سے صدر کے عہدے کی نئی تشریح کے لیے کوشاں ہیں۔ جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت سے اُن کی کوششوں کو ایک نئی تحریک ملی۔ یہ اور بات ہے کہ اس ریفرنڈم نے ترک معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔

اس ریفرنڈم سے قبل کرائے جانے والے رائے عامہ کے متعدد جائزوں کے مطابق عوام کی مطلوبہ پچاس فیصد تعداد اس کے حق میں فیصلہ دے دے گی۔ دوسری طرف اپوزیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ اس ریفرنڈم کی مہم کے دوران ایردوآن کی سیاسی پارٹی نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے، اس لیے یہ مہم شفاف نہیں رہی۔