1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین میں شمولیت کی خواہشمند ریاستیں

25 جولائی 2009

يورپی يونين ميں بہت سے معاملات پر رکن ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہيں اوران کے درميان اتفاق رائے اکثر خاصا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ دوسری طرف يورپی يونين ميں شامل ہونے کے خواہشمند ممالک کی ايک لمبی قطار ہے۔

https://p.dw.com/p/IxCK
يورپی يونين ميں شامل ہونے کے خواہشمند ممالک کی ايک لمبی قطار ہےتصویر: AP

رکن ملکوں کی تعداد ميں اضافے کے ساتھ متفقہ موقف اختيار کرنا اور بھی مشکل ہوجائے گا ۔ کئی اراکين، نئے ملکوں کی شموليت کے حامی ہيں اور کئی اس سلسلے ميں بہت سے تحفظات رکھتے ہيں۔

يورپی يونين کے کئی رکن ملک يہ سمجھتے ہيں کہ نئے ممالک کو صرف اسی صورت ميں يونين ميں شامل کيا جانا چاہئے، جب وہ ان تمام شرائط کو پورا کرتے ہوں، جو 1993ء ميں کوپن ہيگن کی سربراہ کانفرنس ميں طے کی گئی تھيں۔ اس کی اشد ضرورت کا وہ تجربہ بھی کر چکے ہيں۔ رومانيہ اور بلغاريہ کو سياسی مصلحت کی وجہ سے يورپی يونين کا رکن بنايا گيا تھا حالانکہ يہ علم تھا کہ وہاں کرپشن کا زور تھا اور عدليہ ميں بھی بہت سی خامياں پائی جاتی تھيں۔ يورپی کميشن کی تازہ ترين رپورٹ کے مطابق رومانيہ اور بلغاريہ ميں يہ بد عنوانياں اب بھی موجود ہيں۔

نيس کے معاہدے کے مطابق يورپی يونين کے رکن ملکوں کی تعداد زيادہ سے زيادہ ستائيس تک ہو سکتی ہے۔ اسے نئے ملکوں کی شموليت سے بچنے کے لئے عذر کے طور پر استعمال کيا جا رہا ہے۔ اگر آئر لينڈ کے ايک بار انکار کے بعد، سال کے آخر ميں ہونے والے دوسرے ريفرينڈم ميں لزبن کے نئے معاہدے کی منظوری دے دی جاتی ہے تو کروايشيا فوراً يورپی يونين منں شامل ہونے پر اصرار کرنے لگے گا۔ ليکن وہ شموليت کے بعد سیربيا کی رکنيت کو روکے گا۔ اس کے علاوہ يونين ميں شموليت کا تازہ ترين درخواست کننندہ ملک آئس لينڈ ہے، جو اپنی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے جلد ازجلد يورپی يونين منں شامل ہونا چاہتا ہے۔ ليکن يورپی يونين کو ان ملکوں کا لحاظ رکھنا ہو گا، جو برسوں سے رکنيت کے منتظر ہيں۔ اس کے علاوہ آئس لينڈ کے ساتھ کئی مسائل پر يورپی يونين کے اختلافات ہيں۔

EU Sterne spiegeln sich im Europa Rat
ایک معاہدے کے مطابق يورپی يونين کے رکن ملکوں کی تعداد زيادہ سے زيادہ ستائيس تک ہو سکتی ہے۔تصویر: AP

آئس لينڈ اور کروايشيا تو چھوٹے ممالک ہيں، ليکن يورپی يونين میں شموليت کے ايک اور خواہشمند ترکی کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ پچھتر ملين افراد پر مشتمل يہ بڑا مسلم ملک، جس کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے، يورپی يونين ميں شامل .ہو گيا تو وہ اسے، نہ صرف اقتصادی بلکہ سياسی اور معاشرتی لحاظ سے بھی مستقل طور پر بدل کر رکھ دے گا۔ تاہم ترکی کے ساتھ مذاکرات قبرص کے مسئلے پر تعطل کا شکار ہيں، جس کے شمالی حصے پر ترکی کا قبضہ ہے۔ قبرص کے مسئلے سے يورپی يونين کو يہ سيکھنا چاہئے کہ تنازعات اور قضيوں کو حل کرنے بعد ہی کسی نئے ملک کو رکن بنايا جائے۔

يورپی يونين ميں توسيع کے مقصد اور اس کی حدود کے بارے ميں ايک ديانتدارانہ مباحثے کی عرصے سے شديد ضرورت ہے۔ يورپی يونين کو بلقان کے ممالک اور يوکرائن اور جارجيا جيسے، رکنيت کے اميدواروں کے بارے ميں اقتصادی اور سياسی نوعيت کے انديشے ہيں۔ اس کے علاوہ روس بھی يہ نہيں چاہے گا کہ يورپی يونين اتنی وسيع ہو جائے کہ اس کی سرحديں روس سے ملنے لگيں۔ يوکرائن اور جارجيا مغربی فوجی اتحاد نيٹو ميں شموليت کے بھی خواہشمند ہيں اور روس کو اِس پر بھی اعتراض ہے۔

تبصرہ: برنڈ ريگرٹ / شہاب احمد صديقی

ادارت: امجد علی