1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین میں 10 نئے ملکوں کی شمولیت کے پانچ سال

بیرنڈ ریگرٹ/امجدعلی/عدنان اسحاق1 مئی 2009

سن 2004ء میں یکم مئی کا دن یورپی یونین کے لئے ایک بہت بڑا تاریخی دن تھا کیونکہ اُس روز اکٹھے دَس نئے ممالک یورپی یونین کے رکن بنے۔

https://p.dw.com/p/Hi4b
یکم مئی سن 2004ء کو کئی دیگر پورپی شہروں کی طرح چیک دارالحکومت پراگ میں بھی یونین میں توسیع کا جشنتصویر: AP

تب پُرجوش حلقوں کا خیال تھا کہ اِس سے یورپ کی تقسیم اختتام کو پہنچ گئی ہے۔ دیگر کئی حلقوں کو خدشہ تھا کہ اتنی زیادہ تعداد یورپی یونین کے لئے ایک بڑا بوجھ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ پیشین گوئیاں درست ثابت نہیں ہوئیں کہ آٹھ وسطی یورپی ممالک اور بحیرہء روم کے دو جزائر پر واقع ریاستوں کی شمولیت سے یورپ عدم استحکام اور ابتری کا شکار ہو جائے گا۔ اُلٹا دَس نئے ممالک کی شمولیت کے پانچ سال بعد اور رومانیہ اور بلغاریہ کی شمولیت کے دو سال بعد کہا جا سکتا ہے کہ اِن ملکوں کا یورپی یونین میں شامل ہونا یونین کے لئے بھی اور خود اِن ملکوں کے لئے بھی خوشحالی، معاشی اور سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ زیادہ خود اعتمادی بھی لے کر آیا۔

EU- Osterweiterung, Riesenposter von ungarischem Modell
پانچ سال پہلے یونین میں ہنگری کی شمولیت سے دو روز پہلے دارالحکومت بوڈا پیسٹ کے الزبتھ برج پر آویزاں دیو ہیکل پوسٹر پر مشہور ماڈل انیتا کورسوس یونین کے ستاروں والی جرسی پہنےتصویر: AP

گو گذرے پانچ برسوں میں پولینڈ میں عوامیت پسندانہ رجحانات، چیک ری پبلک میں حکومتی بحران، ہنگری کی سڑکوں پر ہنگامے اور ایستونیا میں احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے لیکن یہ بات باعث تعجب نہیں ہے۔ یونین میں شمولیت کے معیارات پر پورا اترنے کا بیرونی دباؤ کم ہوتے ہی ان نئے رکن ممالک میں داخلی سیاسی تنازعات پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آئے۔ تاہم سابقہ سووویت یونین کی بالا دستی سے نجات حاصل کرنے والے اور معربی جمہوری نظام کو اپنے ہاں رائج کرنے والے یہ معاشرے ایک بڑی تبدیلی کے عمل سے گذر رہے ہیں اور ایسے میں وہاں ان سب حالات کا پیش آنا کوئی غیر معمولی بات بھی نہیں ہے۔

اتنے بڑے پیمانے پر یونین میں توسیع کے واقعے کے پانچ سال بعد یورپی برادری کو سنگین مالیاتی بحران اور اُس کے نتیجے میں جنم لینے والےسماجی مسائل کی شکل میں ایک بڑی آزمائش کا سامنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یونین کے امیر اور غریب ممالک کہاں تک آپس میں یکجہتی کا مظاہرہ کر پائیں گے۔ اب تک تو معاشی اعتبار سے کمزور رکن ممالک کو یونین کے باقی رکن ملک سہارا دیتے ہیں لیکن کون جانتا ہے کہ مالیاتی مسائل مزید کتنی شدت اختیار کریں گے اور آیا یورپی یونین کے سبھی ملکوں کی معیشتوں کو دیوالیہ ہونے سے بچایا بھی جا سکے گا۔

Galerie EU Erweiterung Plakat
یکم مئی سن 2004ء کو اکٹھے 10 نئے ممالک یورپی یونین میں شامل ہوئےتصویر: EU

گذرے پانچ برسوں میں عالمی سطح پر یورپی یونین کی سیاسی اہمیت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یونین کے پانچ سو ملین شہری اِس وقت دنیا کے سب سے بڑے اقتصادی زون میں رہ رہے ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ توسیع کے حوالے سے آئندہ کیا کچھ ہونے والا ہے؟

کروشیا بہت جلد یونین کا رکن بن سکتا ہے۔ ترکی کے ساتھ پیچیدہ مذاکرات جاری ہیں۔ اِس کے بعد خطّہ ء بلقان کے باقی ممالک کی باری ہو گی۔ گویا چھ، سات یا آٹھ برسوں میں یونین کے ستائیس رکن ملک بڑھ کر تینتیس بھی ہو سکتے ہیں۔ توسیع کا عمل جاری رہنا چاہیے کیونکہ یورپی یونین کی رکنیت ہی بلقان کے خطےمیں پائیدار استحکام کی ضامن ہو سکتی ہے۔