1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی ’متاثر‘

17 اپریل 2010

يورپی يونين نے پانچ ماہ قبل کيتھرين ايشٹن کو خارجہ سياست کا نمائندہ اعلی منتخب کيا تھا۔ اُن کے لئے خارجہ امور کا ايک دفتر ابھی تک تکميل کے مراحل مکمل نہيں کرسکا جس سے يونين کی خارجہ پاليسی متاثر ہورہی ہے۔

https://p.dw.com/p/MzDT
تصویر: AP

برسلز ميں غير حکومتی تنظيميں شکايت کررہی ہيں کہ لزبن معاہدے کے نفاذ کے بعد سے خارجہ سياست ميں يورپی يونين کے واضح اصولوں کو بھی نظر انداز کيا جارہا ہے۔ يہ يقين دہانياں کرائی گئ تھيں کہ خارجہ سياست ميں يورپی يونين کی غير فعاليت عارضی ہے اور اس کی وجہ صرف يہ ہے کہ کيتھرين ايشٹن کا دفتر ابھی اپنی تشکيل کے مراحل سے گذر رہا ہے۔

تاہم انسانی حقوق کی تنظيم ايمنيسٹی انٹرنيشنل ميں يورپی يونين کی خارجہ پاليسی کے انتظامی افسر ڈيوڈ نکلس کا کہنا ہے کہ اب يہ عذر ناقابل قبول ہوتا جارہا ہے: ’’ اب ہم يہ سن رہے ہيں کہ يہ سلسلہ 18 ماہ يا 2 سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ يہ صحيح ہے کہ ايک عبوری مدت درکار ہوتی ہے ليکن کسی قسم کا تسلسل ہونا بھی ضروری ہے۔ يورپی يونين 2 سال تک محض اس وجہ سے کاروبار بند نہيں کرسکتی کيونکہ وہ اپنے داخلی مسائل حل کرنے ميں مصروف ہے‘‘۔

ايمنيسٹی انٹرنيشنل کو، خاص طور پر سزائے موت کے سلسلے ميں کچھ عرصے سے يورپی يونين کے ناکافی رد عمل پر اعتراض ہے۔ پچھلے سال کے شروع ميں سفيد روس ميں دو افراد کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ سفيد روس،يورپ اور وسط ايشيا کا وہ آخری ملک رہ گيا ہے جہاں ابھی تک سزائے موت کا قانون نافذ ہے۔ سن 2009 ميں يورپی يونين نے ان دونوں افراد کو سزائے موت دينے کی شديد مخالفت کی تھی، ليکن سال رواں کے دوران وہ اس مسئلے پر زيادہ تر خاموش ہی رہی ہے۔ مارچ کے وسط ميں ان دونوں کومنسک ميں خاموشی سے موت کی سزا بھی دے دی گئی ۔ اس کے بعد يورپی يونين نے ايک احتجاجی اعلان تو جاری کيا ليکن يہ ان دونوں کی موت کے 11 دن بعد جاری کيا گيا اور اس ميں ان دونوں کے نام تک نہيں تھے اور نہ ہی اس کا کوئی ذکر تھا کہ اُن کے اہل وعيال کو سزائے موت کی اطلاع تک نہيں دی گئی اور نہ ہی نعشيں اُن کے حوالے کی گئيں۔

Catherine Ashton Außenministertreffen in Brüssel
تصویر: AP

ہيومن رائٹس واچ کی يورپی يونين کی ڈائریکٹر لوٹے لائشت کا کہنا ہے کہ يونين کے ممالک خارجہ پاليسی کے ميدان ميں عالمی چيلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مؤثر انتظامات کے بجائے داخلی کھينچا تانی ميں مصروف ہيں۔ یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ يونين کے نئے دفتر خارجہ ميں کس ملک کو کون سے عہدے ملنا چاہئيں۔ اس وجہ سےکارکردگی پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ اگر تقررياں اہليت اور تجربے کی بنياد پر کی جائيں تو صورتحال بہت بہتر ہوسکتی ہے، ليکن اگر سياست اور اس پر زور ديا جاتا رہا کہ کن ممالک کے اميدواروں کو ترجيح دی جانا چاہئے تو يورپی يونين کی خارجہ پاليسی خراب تر ہوتی جائے گی۔

رپورٹ : شہاب احمد صدیقی

ادارت : عدنان صدیقی