1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ کا سفر کِسے کیسے کھا گیا؟ دلدوز داستانیں شائع

عاطف توقیر
13 نومبر 2017

ایک جرمن اخبار ڈیئر ٹاگِس شپیگل نے یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہو جانے والے افراد کی فہرست جاری کی ہے۔ جس میں بتایا گیا کہ کئی ہزار افراد ایک سہانے خواب کے تعاقب میں زندگی کی بازی کیسے ہار بیٹھے۔

https://p.dw.com/p/2nVcy
Italien Mohammed Ali Malek Kapitän Schlepperschiff Libyen
تصویر: Reuters/Darrin Zammit

جرمن اخبار کی اس فہرست کے مطابق سن 1993 سے رواں برس مئی تک 33 ہزار دو سو ترانوے تارکین وطن یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہوئے۔ چھیالیس صفحات پر شائع کی جانے والی اس فہرست میں ان ہلاک شدگان کے نام، عمریں اور آبائی ممالک کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ اس فہرست میں ہلاک ہونے والوں کی تاریخِ وفات کے ساتھ ساتھ موت کی وجہ بھی تحریر کی گئی ہے۔ بعض تارکین وطن کی تاہم شناخت تک معلوم نہیں ہو پائی اور اخبار نے ایسے ہلاک شدگان کی بابت بھی لکھا ہے۔

'یورپی یونین کی پالیسیوں نے مہاجرین کے لیے خطرات بڑھا دیے‘

بحیرہء روم رواں برس پانچ ہزار تارکین وطن کھا گیا

اسپین: تیر کر آنے والے مہاجرین کی ہلاکت، از سر نو تفتیش

اس فہرست میں ایک نام 36 سالہ عراقی مہاجرطلعت عبدالحمید کا بھی ہے جو رواں برس چھ جنوری کو ترکی اور بلغاریہ کے درمیانی سرحدی پہاڑی سلسلے میں مسلسل 48 گھنٹے چلنے کے بعد شدید سردی کی وجہ سے ٹھٹھر کا ہلاک ہوا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے حوالے سے اس فہرست میں اس 15 سالہ ایک لڑکے کا بھی ذکر ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کے لیے ربڑ کی کشتی پر سوار ہوا، مگر یہ کشتی 15 نومبر 2016 کو ڈوب گئی اور یہ بچہ بحیرہء روم کی موجوں کی نذر ہو گیا۔

اخبار کا موقف ہے کہ یہ فہرست شائع کرنے کی ایک وجہ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد اور مہاجرین کی بابت سخت تر یورپی پالیسیوں کے نتائج کو دستاویزی شکل دینا ہے، جن کی بنا پر یورپی سرحدوں کے باہر یا اندر کوئی شخص اپنی جان سے گیا۔

اخبار کے مطابق بعض تارکین وطن جو کسی طرح یورپ پہنچ بھی گئے، وہ بھی بعد میں مختلف پرتشدد حملوں میں مارے گئے یا پھر اپنی پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں کے انتظار میں انہوں نے زیرحراست ہی خودکشی کر لی۔

ایک 17 سالہ صومالی لڑکا مشرقی جرمنی کے شہر شمؤلنہے میں اس وقت مارا گیا، جب انتہائی دائیں بازو کے نیونازیوں نے اسے 21 اکتوبر 2016 کو ایک ٹاور سے چھلانگ لگانے پر مجبور کیا۔ اخباری فہرست کے مطابق یوگینڈا سے تعلق رکھنے والے ایک 30 سالہ شخص نے جنوبی انگلینڈ کے ایک حراستی مرکز میں خودکشی کی۔

’تربیت اور کام دو، ملک بدر نہ کرو‘

جرمن اخبار ڈیئرٹاگِس شپیگل کے مطابق، ’’ہم ان تارکین وطن کو تکریم دینا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی بابت یہ ایک سطر ایک کہانی بھی بتائے۔ یہ فہرست دن بہ دن طویل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

اس فہرست میں ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی زیادہ تر تعداد وہ ہے، جو بحیرہء روم عبور کر کے یورپ پہنچنا چاہتی تھی، مگر سمندر کی بے رحم موجیں انہیں کھا گئیں۔