1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان کی معاشی صورتحال اور یورو کو لاحق خطرات

8 جنوری 2010

بین الاقوامی مالیاتی بحران کے آغاز سے اب تک یونان کی مالیاتی حالت اتنی خراب ہو چکی ہے کہ کئی ماہرین اب یورپی کرنسی اتحاد کی ناکامی کو بھی خارج ازامکان قرار نہیں دے رہے۔

https://p.dw.com/p/LON2
تصویر: RIA Novosti

بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں میں اپنے ذمے واجب الادا ریاستی قرضوں کی وجہ سے یونین کے رکن ملک یونان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران یونان کے سالانہ بجٹ میں خسارے یا نئے قرضوں کی شرح مجموعی قومی پیداوار کے 12.7 فیصد سے بھی زائد بنتی ہے۔

یونان میں ریاست کے ذمے قرضوں کی مالیت 300 بلین یورو سے تجاوز کر چکی ہے۔ 2010 میں اس ملک میں ریاستی خسارے کی مجموعی شرح مجموعی قومی پیداوار کے 120 فیصد کے برابر ہو جائے گی۔ یہ اعداد و شمار یورپی یونین میں مالیاتی اتحاد کے لئے طے کردہ معاشی استحکامی معاہدے میں درج شرائط کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔ اس لئے کہ اس معاہدے کے تحت کسی بھی رکن ملک میں سالانہ خسارے کی شرح تین فیصد اور ریاستی قرضوں کی کل مالیت مجموعی قومی پیداوار کے 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔

Griechenland Athen Proteste Streik
یونان میں حکومت کی معاشی پالیسی کے خلاف نکالی گئی ریلی کا منظرتصویر: AP

یونانی معیشت کی یہ تشویشناک صورت حال یورپی مشترکہ کرنسی یورو کے لئے اپنے اندر کئی خطرات لئے ہوئے ہے۔ اسی لئے یورپی مشترکہ کرنسی یورو کو اس وقت بظاہر اپنی تاریخ کے سب سے بڑے امتحان کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی بحران کے آغاز سے اب تک یونان کی حالت اتنی خراب ہو چکی ہے کہ کئی ماہرین اب یورپی مالیاتی اتحاد کی ناکامی کو بھی خارج ازامکان قرار نہیں دے رہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اٹلی، یونان، پرتگال اور سپین نے سالہاسال تک یورپی اتحاد سے فائدہ اٹھایا۔ یورو کی وجہ سے ان ملکوں کی معاشی کارکردگی میں قابل ذکر اضافہ ممکن ہوا۔ لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ فائدہ کم ہوتا گیا اور منفی اثرات بھی سامنے آنے لگے۔ مثال کے طور پر اجرتوں میں بہت زیادہ اضافہ لیکن پیداوار میں خاطرخواہ ترقی کا فقدان۔

ان ملکوں میں یورو زون کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کارکنوں کی اجرتوں میں اضافہ غیر معمولی تھا۔ نتیجہ یہ کہ ان ریاستوں کی اقتصادی طور پر مقابلے کی اہلیت متاثر ہوئی اور اس میں بھی یونان باقی ملکوں سےآگے تھا۔

پھر برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہونے لگا۔ 2007 میں اسپین اور پرتگال میں قومی معیشتوں کی درآمدی اور برآمدی کارکردگی کا میزانیہ اگر منفی دس فیصد کے قریب رہا تو یونان میں برآمدات اور درآمدات کے حجم میں یہی فرق 14 فیصد کے قریب ہو گیا تھا۔

Spanien ETA erklärt Waffenruhe Jose Luis Rodriguez Zapatero in Parlament
یورپی یونین کے ششماہی صدارتی ملک اسپین کے وزیراعظم Jose Luis Rodriguezتصویر: AP

ایسے میں ان ملکو‌ں کو اپنی کرنسی کی قدر و قیمت میں کمی کرنا چاہیے تھی تاکہ عالمی منڈیوں میں ان کی برآمدات سستی ہوتیں اور نئی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے مواقع پیداہوتے۔ لیکن یونان اور اس کی طرح کے دیگر ملک اپنی کرنسی کی قدر و قیمت میں کمی کر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے کہ ان کی اپنی کوئی قومی کرنسی نہیں ہے۔ وہ یورو زون میں شامل ہیں اور وہاں یورو رائج ہے۔

جرمنی میں Tübingen یونیورسٹی کے اقتصادیات کے پروفیسر اور سوشل مارکیٹ اکانومی نامی ورکنگ گروپ کے سربراہ یوآخِم سٹاربٹی کہتے ہیں: "اگر گزشتہ برسوں کے دوران نظر آنے والے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان ملکوں میں کرنسی کی قدر و قیمت میں واضح کمی ایک سے زائد مرتبہ لازمی ہو گئی تھی۔ میری رائے میں اٹلی کو اصولی طور پر اپنی کرنسی کی قیمت میں چالیس فیصد تک کمی کرنا چاہیے تھی۔ اسپین کو تیس فیصد اور یونان اور پرتگال کو تیس اور چالیس فیصد کے درمیان۔"

لیکن یورو میں شمولیت سے پہلے ان ملکوں کی قومی کرنسیاں، جو اب موجود نہیں ہیں، ان کی شرح تبادلہ تو مستقل بنیادوں پر طے کر دی گئی تھی۔ لہٰذا اب ان ملکوں کے پاس انفرادی طور پر شرح تبادلہ میں رد و بدل یا کرنسی کی قیمت میں کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اقتصادی ماہرین کے بقول یورپی مالیاتی اتحاد ایک ایسی سڑک ہے جس پر ٹریفک صرف ایک ہی سمت میں چلتی ہے۔ ایک بار رکنیت کا مطلب ہے ہمیشہ کے لئے شمولیت۔ اس لئے یونان جیسے ملکوں کو چاہیے کہ وہ دیوالیہ پن کی حد تک زیادہ ریاستی قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے اجرتوں میں اضافے کو روکنے کے لئے انتہائی سخت پالیسی اپنائیں اور مالیاتی سیاست میں بھی خود کو ہر ممکن حد تک نظم وضبط کا پابند بنائیں۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق