1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یکم جنوری سے رومانیہ اور بلغاریہ کی یورپی یونین میں شمولیت کا فیصلہ

26 ستمبر 2006

برسلز میں یورپی کمشن نے دو نئے رکن ملکوں کے طور پر بلغاریہ اور رومانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت سے متعلق اپنی حتمی سفارشات کا اعلان کردیا ہے۔ اگر ان دونوں مشرقی یورپی ملکوں میں اصلاحات کے سست رفتار عمل اور وہاں اب تک پائی جانے والی وسیع تر بدعنوانی کو مد نظر رکھا جائے تویورپی کمشن یہ سفارش بھی کرسکتا تھا کہ ان دونوں ریاستوں کی یونین میں مجوزہ شمولیت کو ایک سال کے لئے سن 2008 تک کے لئے موخر کردیا جائے۔

https://p.dw.com/p/DYJ3
رومانیہ میں ایک دیہی سڑک کا منظر : رفتار کے دو مختلف معیارات
رومانیہ میں ایک دیہی سڑک کا منظر : رفتار کے دو مختلف معیاراتتصویر: AP

تاہم یورپی کمشن نے سفارش یہ کی ہے کہ بلغاریہ اور رومانیہ کو اگلے برس یونین کی رکنیت دے دی جائے، لیکن ساتھ ہی بہت سخت شرائط کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ اب یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ یکم جنوری 2007 سے، جیسا کہ شروع میں تجویز کیا گیا تھا، بلغاریہ اور رومانیہ بھی یورپی یونین کے رکن بن جائیں گے ۔ یوں اس بلاک میں شامل ریاستوں کی تعداد 25 سے بڑھ کر 27 ہو جائے گی۔

اپریل 2005 میں لکسمبرگ میں منعقدہ ایک باقاعدہ تقریب میں بلغاریہ اور رومانیہ نے یورپی یونین میں اپنی شمولیت کے معاہدوں پر بڑی خوشی سے دستخط کئے تھے۔ تب سے اب تک برسلز میں یورپی کمشن کی طرف سے ان دونوں ملکوں پر تعریف کے ساتھ ساتھ مسلسل تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔ اس تنقید کی وجہ عدلیہ اور انتظامی شعبوں میں صوفیہ اور بخاریسٹ کی طرف سے شروع کردہ اصلاحات کی غیر تسلی بخش رفتار بنی۔

برسلز کی تنبیہہ

خاص طور پر بلغاریہ میں بدعنوانی اور شدید نوعیت کے جرائم کے خلاف حکومت کافی عملی اقدامات نہ کرسکی۔ یہی شکائت یورپی یونین میںتوسیع سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر Olli Rehn بھی کرتے رہے جنہوں نے اس سال جون میں اپنی طرف سے حتمی طور پر یہ بھی کہہ دیا تھا: "میں بلغاریہ میں اپنے دوستوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوںکہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ آستینیں چڑھا کر اپنی جدوجہد میں تیزی لائیں۔"

اس تنبیہہ کے بعد صوفیہ اور بخاریسٹ میں حکومتوں اور پارلیمانی اداروں نے کافی تیزی دکھائی اور بہت کچھ پہلے کے مقابلے میں قدرے بہتر ہو گیا۔ لیکن یورپی کمشن کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، ان دونوں ملکوں میں ابھی بھی سبھی کچھ یورپی معیار کا نہیں ہے۔ بہت سے شعبے ابھی تک مزید اصلاحات اور بہتری کے انتظار میں ہیں۔ پھر بھی توسیع سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر Olli Rehn نے یہ سفارش کر دی ہے کہ ان دونوں مقابلتہً غریب ملکوں کو مجوزہ پروگرام کے مطابق، یکم جنوری 2007 سے یونین میں شامل کر لیا جائے۔ تاہم ساتھ ہی یورپی یونین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان ریاستوں کو آئندہ ایسے حفاظتی یا تادیبی اقدامات کی دھمکی بھی دے دی گئی ہے جن کے تحت مستقبل میں بلغاریہ اور رومانیہ کو ملنے والی یورپی یونین کی مالی امداد کو معطل بھی کیا جاسکے گا۔

یورپی مالی مراعات

اس کے علاوہ ان دونوں ملکوں کی یورپی یونین کی طرف سے سخت نگرانی بھی کی جائے گی کیونکہ برسلز کا الزام ہے کہ ان دونوں مشرقی یورپی ملکوں میں سرکاری ادارے یونین کی فراہم کردہ مالی امداد کے انتظام اور مناسب تقسیم کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ اسی لئے اگلے برس مارچ کے آخر تک صوفیہ اور بخاریسٹ میں ملکی حکومتوںکو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ برسلز کی مہیا کردہ مالی مراعات مختلف شعبوں میں یوںتقسیم کی جاسکتی ہیں کہ ان میں بدعنوانی کا کوئی امکان نہ ہو۔

رومانیہ میں بدعنوانی کی روک تھام کے ملکی ادارے کے سربراہ Daniel Morar کی رائے میں ان کے ملک میں دھوکہ دہی، بدعنوانی اور رشوت ستانی کے خلاف جنگ ایک طویل عرصت تک جاری رہے گی۔ "رومانیہ میں بدعنوانی آج بھی ہر جگہ نظر آنے والامسئلہ ہے۔ ملکی زندگی کے ہر شعبے میں رشوت ادا کی جاتی ہے اور یہ بات عوام کے ذہنوں میں گھر کر چکی ہے۔ اب ہم اس مسئلے کے تدارک کے لئے اعلیٰ ترین سطح پر دھیان دے رہے ہیں۔ اس وقت ہم بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف بھی جنگ کر رہے ہیں اور پولیس اور عدلیہ کے شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز اہلکاروں کے خلاف بھی تحقیقات کی جارہی ہے۔"

التواءکی بجائے سخت شرائط کی مصلحت

رومانیہ میں اشیائے خوراک کے شعبے میں حفظان صحت کے اصولوں کاکافی خیال نہ رکھا جانا بھی ایک مسئلہ ہے۔ روما اقلیت کے حالات بھی درد سر بنے ہوئے ہیں اوربچوں کو گود لینے سے متعلق قوانین بھی اصلاحات کے طلب گار ہیں۔ اس تناظر میں یورپی کمشن بلغاریہ اور رومانیہ کی یونین میں شمولیت کو ایک سال کے لئے مﺅخر کرنے کا فیصلہ بھی کرسکتا تھا مگر اس کا نتیجہ ان ملکوں میں اصلاحات پسند قوتوں اور صوفیہ اور بخاریسٹ میں حکومتوںکے لئے شرمندگی کے سوا کچھ نہ نکلتا۔ یہی وجہ ہے کہ بلغاریہ کے وزیر اعظم Sergej Stanischew نے اپنے ایک حالیہ دورہ¿ برسلز کے دوران یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ان کا ملک خود پر عائد ہونے والی تمام ذمے داریاں پوری کرنا چاہتا ہے۔ "ہم یورپی کمشن کے ساتھ تعاون سے مسلسل بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔ ہم مسلسل بہتر ہو تے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم یورپی یونین کا ایک اچھا رکن ملک ثابت ہوں گے۔"

متفقہ فیصلے کی شرط

یکم جنوری 2007 سے بلغاریہ اور رومانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت سے پہلے تمام 25 رکن ملکوں کی منظوری حاصل کرنا بھی لازمی ہو گا۔ فرانس، ڈنمارک اور جرمنی میں تو ان ریاستوں کے ساتھ طے پانے والے رکنیت کے معاہدوں کی توثیق بھی لازمی ہو گی۔ لیکن یہ اقدامات ایک ایسی رسمی کارروائی ہیں جس میں، یورپی کمشن کی سفارش کے بعد، تقریباً یقینی طور پر کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

بلغاریہ اور رومانیہ کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہاں ایک عام شہری کی اوسط آمدنی ، یورپی یونین میں شہریوں کی اوسط آمدنی کے محض ایک تہائی کے برابر ہوتی ہے۔ تاہم معیشی ترقی میں اضافے کی رفتار کافی زیادہ ہے ، بے روزگاری کم ہو رہی ہے اور قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں۔

روزگار کی منڈی تک رسائی

یہ امر واضح نہیں ہے کہ بلغاریہ کے 8 ملین اور رومانیہ کے 22 ملین شہریوں میں سے کتنے، روزگار کے بہتر مواقع کے لئے یونین کے رکن کسی دوسرے ملک میں منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ بہت سے پرانے رکن ملک، جن میں جرمنی اور پہلی مرتبہ برطانیہ بھی شامل ہیں، رومانیہ اور بلغاریہ کے عوام کو اپنے ہاںآزادانہ آمدورفت کی اجازت دینے سے پہلے پانچ سال تک انتظار کرنا چاہتے ہیں۔ تب تک ان ملکوں میں بلغاریہ اور رومانیہ سے آنے والے کارکنوں کو روزگار کی قومی منڈیوں تک رسائی حاصل نہیں ہو گی۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ شروع میں اگر ان دونوں ملکوں کے شہری یونین کے رکن کسی دوسرے ملک کا رخ کرتے ہیں تو یہ ریاستیں اٹلی اور اسپین جیسے ملک ہوں گے جہاں ایک یورپی شہری کے طور پر روزگار کی اجازت حاصل کرنا قدرے آسان ہے۔

اگلی توسیع سے پہلے یورپی آئین

یورپی یونین میں یہ آئندہ توسیع اس بلاک کی مشرق کی طرف دوسری توسیع ہو گی ۔ یورپی کمشن کے صدرJose Manuell Borroso کا کہنا ہے کہ اس توسیع کے بعد فی الحال یہ عمل روک دیا جائے گا۔ اس لئے کہ اپنے 27 رکن ملکوں کے ساتھ، یورپی یونین کے موجودہ ادارے اپنی کارکردگی کی انتہائی حد تک پہنچ جائیں گے۔ "میرا خیال ہے کہ یونین کے آئین سے متعلق معاملات طے کئے بغیر توسیع کے عمل کو جاری رکھنا ایک ناقابل عمل تجویز ہو گی۔ اسی لئے اب یورپی آئین جیسے معاملات وہ اہم سوال بنتے جارہے ہیں جن کے فوری جواب اور بھی ضروری ہوتے جا رہے ہیں۔ "

یورپی کمشن میں توسیع

برسلز میں یورپی کمشن کو، جو یورپی یونین کا اعلیٰ ترین انتظامی ادارہ ہے، بلغاریہ اور رومانیہ کو یونین کی رکنیت دیتے وقت، ان ملکوں کے نمائندوںکو اپنے داخلی ڈھانچوں میں بھی جگہ دینا ہو گی۔ تب یورپی کمشن 27 رکن ملکوں سے تعلق رکھنےوالے 27 یورپی کمشنروں پر مشتمل ہوگا۔ اس کے لئے کمشن کے صدر Barroso نے ابھی سے عہدوں کی جزوی تقسیم نوپر غور کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ اس ادارے میں اختیارات اور فرائض کی واضح تقسیم کا عمل اس طرح جاری رہے کہ ساتھ ہی یورپی کمشن کی کارکردگی کو بھی مزید بہتر بنایا جاسکے۔