1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہاں آ کر دیکھیں ہر طرف پی ٹی ایم نظر آئے گی، منظور پشتین

15 نومبر 2020

پاکستان میں پشتون تحفظ موومنٹ نے اتوار کو شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ میں ایک بڑا جلسہ عام منعقد کیا۔

https://p.dw.com/p/3lKFr
Pakistan Manzoor Pashtun
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary

اس جلسے سے تحریک کے رہنما منظور پشتین، اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، اے این پی کے سابق رہنما افراسیاب خٹک اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے بھی خطاب کیا۔

جلسے میں شرکت کے لیے پی ٹی ایم کے اراکین دور دور سے گاڑیاں بھر کر میرانشاہ پہنچے تھے اور انہوں نے سفید و سیاہ پرچم اٹھا رکھے تھے۔

پاکستانی میڈیا میں پی ٹی ایم کے جلسے اور پریس کانفرنسیں دکھانے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ اتوار کو پاکستانی ٹی وی چینلوں پر گلگت بلتستان میں ووٹنگ کا موضوع حاوی رہا لیکن میرانشاہ کے جلسے کو یکسر بلیک آؤٹ کر دیا گیا۔

اس موقع پر منظور پشتین نے کہا، '' وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم ختم ہو گئی ہے وہ آج یہاں آ کر دیکھیں تو انہیں ہر طرف پی ٹی ایم ہی نظر آئے گی۔‘‘

 

 اپنے خطاب میں رکن اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ یہ عظیم الشان جلسہ ایک عوامی ریفرنڈم ہے، جس میں لوگ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کا لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ آئندہ ریاست کے کسی کھیل میں استعمال ہونے کے لیے تیار نہیں۔

اس موقع پر شرکاء نے شہریوں کی  جبری گمشدگیوں، قتل اور زیادتیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عسکری اداروں سے آئین و قانون کی پاسداری کا مطالبہ کیا۔

پاکستان میں فوجی اور کئی دیگر حلقے پی ٹی ایم پر الزام لگاتے آئے ہیں کہ اسے افغانستان اور بھارت کی حمایت حاصل ہے اور یہ تنظیم ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

پی ٹی ایم ان الزامات کو سرکاری پروپیگنڈا قرار دے کر رد کرتی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی آئین میں دیے گئے شہری حقوق کے لیے پرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے والے اپنی' عوام دشمن پالیسیوں‘ پر نظر ثانی کریں۔ 

پی ٹی ایم کا مطالبہ رہا ہے کہ 'ریاستی زیادتیوں‘ کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا جائے، ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا ملے، جھوٹے مقدمات واپس لیے جائیں، دہشت گردی کا نشانہ بننے والے خاندانوں کو معاوضہ دیا جائے اور حالات میں بہتری کے ایک مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے۔