1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہودی قتل عام کی یادیں اب انٹرنیٹ پر

26 اکتوبر 2009

دوسری عالمی جنگ نے جہاں دنیا کوایٹم بم کے سانحے سے دوچارکیا، وہیں جرمنی میں بسنے والے یہودی بھی نازی ازم کا بہت وحشیانہ طریقے سے شکار ہوئے۔ اس سارے سانحے کی یادیں اب انڑنیٹ کی معروف سوشل ویب سائٹ فیس بک پر بھی دستیاب ہیں

https://p.dw.com/p/KF6O
تصویر: AP

دوسری عالمی جنگ سے پہلے اور اِس کے دوران نازی سوشلسٹوں کے زیرِ انتظام علاقوں میں ساٹھ لاکھ یہودی قتل کئے گئے۔ نازی فوجی انہیں ہلاک کرنے کے لئے مختلف کیمپوں میں لے کر جاتے تھے۔ صرف آؤش وِٹز کے اذیتی کیمپ میں ہی دَس لاکھ سے زیادہ یہودی اور پولستانی باشندے قتل کئے گئے۔ یہ کیمپ پولینڈکی سرحد کے قریب واقع تھا اور جنگ کے بعد یہ علاقہ پولینڈ میں شامل قرار دیاگیا۔ اس کیمپ کو اب ایک میوزیم کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اب اس میوزیم کے مقاصد کوصحیح معنوں میں پورا کرنے کیلئے اس کے بارے میں فیس بک پر ایک بحث شروع کی گئی ہے۔ اِس کا مقصد بالخصوص نوجوانوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ کسی قوم کی اجتماعی نسل کشی کتنا گھناؤنا جرم ہے۔

کییمپ کی اس دہشت کو نئی نسل تک ایک مخصوص طریقے سے پہنچانے کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ نسلیں اس قسم کا فعل نہ دہرا ئیں۔ آن لائن بحث کا یہ فورم اپنے صارفین کو ایک دوسرے کو پیغامات بھیجنے اور دوسرے نیٹ ورکس جوائن کرنے کی بھی سہولت فراہم کرتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس سائٹ کو وزٹ کر رہے ہیں اور باہمی روابط سے ہولوکاسٹ کے بارے میں مزید جان رہے ہیں۔

Kinder im Konzentrationslager in Auschwitz, 60 Jahre Gedenktag
آؤش وِٹز جو کبھی محض ایک علاقے کا نام تھا، اب لیکن یہ لفظ خوف، وحشت اور نسل کشی کے ایک مترادف کی حیثیت اختیارکر چکا ہے۔تصویر: dpa

اس کی پروفائل ہولوکاسٹ پر بحث کرنے والے دیگرفورمز کے لنکس بھی فراہم کر رہی ہے۔ ان لنکس پر کیمپ کی تصویریں اور پرانے قیدیوں کے انٹرویوز بھی دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں۔ یہاں مختلف تبصرے بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ سائٹ دیکھنے کے بعد بہت افسردگی کا اظہارکرتے ہیں۔ اور اس بات پر سوچتے ہیں کہ 60 لاکھ یہودیوں کو آخر نازی جرمنوں نے کیوں قتل کیا۔

آؤش وِٹز میوزیم کے ترجمان، پاویل ساوِٹسکی، فیس بک پروفائل کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "ہمارا خیال ہے کہ اس سائٹ کے ذریعے ہم دنیا کو ذمہ داری کی اہمیت کا پیغام دے سکتے ہیں۔ ایسی ذمہ داری جو ایک فرد پر بھی عائد ہوتی ہے اور معاشرے پر بھی کہ ہمیں ظلم کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے تاکہ آئندہ ہم ایسے واقعات سے بچ سکیں۔"

فیس بک کے 300 ملین یوزرز نوجوان اور طالبعلم ہیں اور آؤش وِٹز میوزیم کی انتظامیہ کی کوشش ہوگی کہ اس بحث کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔ رائے عامہ اور ذمہ داری کے تناظر میں بات کرتے ہوئے ساوِٹسکی کا کہنا مزید کہنا تھا: "لوگوں کی رائے اور عمل بہت تبدیلی لا سکتا ہے۔ اب کوئی بھی اپنے کمپیوٹر کی سکرین کے سامنے بیٹھا دنیا میں ہونے والے واقعات سے الگ نہیں رہ سکتا۔ یہ دنیا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔"

فیس بک کے ذریعے یہودیوں کے قتل عام پر اس طرح ہوتی بحث کو صحیح یا غلط کہنے کے حوالے سے بھی چرچا ہو رہا ہے لیکن اس پہلوپر اسرائیل آفس آف دی جیوئش ہیومن رائٹس کے ڈائریکڑ 'افرائیم زوروف' کا کہنا ہے: "یہودیوں کے قتل عام کی یاد کو تازہ رکھنے کے اور بہت سے طریقوں میں سے یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ اس سے نئی نسل کیلئے ایجوکیشن کا پہلونکلتا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ فیس بک اِس کے لئے ایک مؤثر ذریعہ ہے۔"

کچھ صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کو آؤش وِٹز کی اس پروفائل پر بطور یُوزر ہی رہننے دیا جائے اور یہ کہ اُنہیں خود کو فین ظاہر کیا جانا مناسب نہیں لگتا لیکن میوزیم کی خواہش ہے کہ انہیں وہ ایک فین کے طور پر ہی دکھائے، جو قتل عام کی کارروائی کے خلاف ہیں۔

رپورٹ: عبدالرؤف انجم

ادارت: امجد علی