1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یہ بے سُود عمل ہے‘: پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں انتخابات

عبدالستار، اسلام آباد21 جولائی 2016

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی اکتالیس نشستوں کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر پولیس اور فوج کے تیس ہزار سے زائد اہلکار امن و امان برقرار رکھنے کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JT6n
Pakistan Wahlen in Kaschmir
اکیس جولائی 2016ء: پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں ایک بزرگ اپنا ووٹ ڈال رہا ہےتصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

ان اکتالیس نشستوں میں سے بارہ نشستیں کشمیری مہاجرین کے لیے ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ نشستیں خواتین کے لیے، ایک علماء، ایک ٹیکنو کریٹس اور ایک بیرون ملک مقیم کشمیریوں کے لیے ہے۔ان نشستوں کے لیے چار سو تئیس امیدوار میدان میں ہیں جب کہ ووٹرز کی کل تعداد2,674,586 ہے، جن میں 1,483,747 مرد اور 1,190,839 خواتین ہیں۔

پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کی ساری بڑی سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ کچھ ایسی جماعتیں بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، جو جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالف ہیں۔

ان انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے یونائیٹڈ کشمیر نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ پروفیسر خلیق احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان انتخابات سے کشمیر کے کاز کو کوئی فائد ہ نہیں پہنچتا بلکہ اس کا نقصان ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر کو پاکستان کی بیوروکریسی چلاتی ہے اور اس مرتبہ وہ نون لیگ کے ساتھ ہے لہٰذا اُسی کے جیتنے کے زیادہ امکانات ہیں۔‘‘

سرحد کے دونوں اطراف کی کشمیری جماعت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ بھی ان انتخابات سے الگ تھلگ ہے۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس جماعت کے شعبہٴ خواتین کی صدر طاہرہ چوہدری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ انتخابات 1974ایکٹ کے تحت ہو رہے ہیں۔ یہ دنیا کا عجیب ایکٹ ہے، جو 44 سال سے چل رہا ہے کیونکہ ہم الحاق پر یقین نہیں رکھتے، اس لیے ہم انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ان انتخابات کا ویسے بھی کون سا فائدہ ہے۔ اس منتخب ایوان کو کوئی مالیاتی اختیارات حاصل نہیں۔ یہ سارے اختیارات کشمیر کونسل کے پاس ہیں، جس میں پاکستانیوں کی اکثریت ہے۔ یہاں سارے اعلٰی سرکاری عہدیدار پاکستان سے آتے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی کے ارکان کشمیر کے مسئلے کو سفارتی سطح پر نہیں اٹھا سکتے۔ آزاد کشمیر کو وزارتِ امورِ کشمیر چلاتی ہے۔ یہ انتخابات صرف اِلحاق کے حامیوں کو خوش کرنے کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں یہاں آ کر پاکستان کی سیاست کرتی ہیں۔ عمران خان نواز شریف کو برا بھلا کہتا ہے جب کہ نون لیگ عمران پر کیچڑ اچھالتی ہے۔ ہماری اسمبلی میں ایم کیو ایم کے لوگ بھی رکن بنے۔ کشمیرکے لیے اصل جدوجہد کرنے والوں کا ان انتخابات سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

انہوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیر کونسل اور وزارتِ امورِ کشمیرکو بند کیا جائے۔ انتخابات لڑنے کے لیے الحاق کی شرط کو تسلیم کرنے والی شق کا خاتمہ کیا جائے اور قانون ساز اسمبلی کو حقیقی معنوں میں مالیاتی و انتظامی اختیارات دیے جائیں۔

Pakistan Wahlen in Kaschmir
اکیس جولائی 2016ء: پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے ایک پولنگ اسٹیشن میں خواتین اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہی ہیںتصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

سابق رکنِ قانون ساز اسمبلی سلیم بٹ نے ان انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آزاد کشمیر میں نظریاتی سیاست یا جماعت کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوتی بلکہ یہاں برادری کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، جو سیاسی جماعت برادری کو پیشِ نظر رکھ کر ٹکٹیں تقسیم کرتی ہے، اُسے انتخابات میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔‘‘

ان انتخابات کی پولنگ صبح آٹھ بجے شروع ہوئی تھی، جو شام پانچ بجے تک جاری رہے گی۔ ایک دو معمولی جھگڑوں کے علاوہ تمام حلقوں میں پولنگ پُرامن انداز میں ہو رہی ہے۔

دریں اثناء پاکستان کی حکومت بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں صورتِ حال پر سخت نالاں نظر آتی ہے، جس کا اظہار وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں آج کیا۔

سرتاج عزیز نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے یو این ایچ سی آر سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن مقبوضہ کشمیر بھیجے اورحالیہ دنوں میں بے گناہ کشمیریوں کی ہلاکت کی تفتیش کرے۔‘‘ انہوں نے بین الاقوامی برادی سے اپیل کی کہ وہ کشمیر کی صورتِ حال کا نوٹس لے اور کشمیریوں کی مدد کرے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں