1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2008: ادب و ثقافت کی دنیا میں نت نئے ریکارڈز کا سال

امجد علی31 دسمبر 2008

جرمنی میں 2008ء کئی نئے ادبی و ثقافتی ریکارڈز کا سال تھا۔ 105 سالہ ژوہانیس ہیسٹرزنے دنیا کے بزرگ ترین فنکار کے طور پر اپنے فن کا مظاہر ہ کیا تو مشہور جرمن مصور گیرہارڈ رِشٹر نے اپنی ایک تصویر دَس ملین یورو میں فروخت کی۔

https://p.dw.com/p/GPHH
ایک سو پانچ سالہ اداکار اور گلوکار ژوہانیس ہیسٹرزتصویر: AP

ژوہانیس ہیسٹرز دُنیا کے بزرگ ترین اور ابھی تک فعال اداکار اور گلوکار ہیں۔ پوری عمر اُن کی جرمنی میں گذری لیکن بنیادی طور پر اُن کا تعلق جرمنی کے ہمسایہ ملک ہالینڈ سے ہے، جہاں وہ پانچ دسمبر سن اُنیس سو تین کو پیدا ہوئے تھے۔ اِس سال دسمبر کے مہینے میں وہ جرمن شہر ہیمبرگ میں ایک سو پانچ برس کی عمر میں شہنشاہ فرانس ژوزیف کے روپ میں اسٹیج پر جلوہ گر ہوئے۔

بطور اداکار اُن کی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز گذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں ہوا تھا اور سن اُنیس سو چھتیس میں اُن کی اکٹھی تین فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ اُنیس سو چوالیس تک کے نازی سوشلسٹ دور میں اُن کی تقریباً بیس فلمیں نمائش کے لئے پیش کی جا چکی تھیں۔ اِن فلموں کا مقصد جنگ کی ہولناکیوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانا تھا۔

Künstler Gerhard Richter
جرمنی کے نامور مصور گیرہارڈ زشٹرتصویر: picture-alliance/ dpa

تاہم آج ژوہانیس ہیسٹرز کہتے ہیں کہ وہ محض فنکار تھے اور سیاست سے اُنہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی:’’مَیں نازی سوشلسٹ پارٹی کا رکن نہیں تھا، نہ ہی میرے بچے بی ڈی ایم نامی تنظیم میں شامل رہے بلکہ وہ تو فرانس میں ساکرے کوئر کے مقام پر اسکول میں تھے۔‘‘

دوسری عالمی جنگ کے بعد تخلیق ہونے والی پینٹنگز کے شعبے میں بھی فروخت کا اِس سال ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا، جب مئی میں برطانوی مصور فرانسس بیکن کی تین حصوں پر مشتمل ایک تصویر کے لئے پچپن اعشاریہ سات ملین یورو ادا کئے گئے۔ اِس طرح یہ تصویر دنیا کی چھٹی مہنگی ترین پینٹنگ بن گئی ہے۔

گیرہارڈ رِشٹر کو دَورِ حاضر میں جرمنی کا کامیاب ترین مصور کہا جاتا ہے۔ اِس سال اُن کی ایک پینٹنگ تقریباً دَس اعشاریہ سات ملین یورو کی ریکارڈ قیمت میں فروخت ہوئی۔ اِس کا عنوان تھا: ’’موم بتی‘‘۔ اِس سے پہلے رِشٹر کی کوئی بھی تصویر اتنے مہنگے داموں فروخت نہیں ہوئی۔

Großbritannien Kunst Damien Hirst Diamantenschädel
متنازعہ برطانوی مصور ڈیمین ہرسٹ کی بنائی ہوئی انسانی کھوپڑی جس پر تقریباً نو ہزار ہیرے جڑے ہوئے ہیںتصویر: AP

رِشٹر اپنی تصاویر پر بات کرنا زیادہ پسند نہیں کرتے، کہتے ہیں:’’پوچھے جانے والے سوالات میں ایسے گھسے پِٹے سوالات بھی شامل ہوتے ہیں کہ یہ تصویر بناتے وقت آپ نے کیا سوچا تھا؟ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی آئن شٹائن سے یہ پوچھے کہ یہ مساواتیں آپ کیا سوچ کر بناتے ہیں۔ ارے بھئی وہ سوچتا کچھ نہیں، بس حساب لگاتا ہے۔‘‘

اِس سال برطانیہ کے امیر ترین اور متنازعہ مصور ڈیمین ہرسٹ بھی شہ سُرخیوں میں رہے۔ مالیاتی بحران کے نقطہء عروج پر پہنچنے سے پہلے پہلے اِس تینتالیس سالہ مصور نے دو روز میں اپنی کئی پینٹنگز مجموعی طور پر ایک سو چالیس ملین یورو میں فروخت کیں۔ کسی ایک فنکار کے لئے وقف کی گئی نیلامی میں ہونے والی آمدنی کا یہ ایک نیا ریکارڈ تھا۔

Ahmed Faraz Dichter aus Pakistan
پاکستان کے نامور شاعر احمد فراز پچیس اگست دو ہزار آٹھ کو انتقال کرگئےتصویر: AP

2008ء میں ہم سے جدا ہو جانے والی شخصیات:

25 اگست کو پاکستان کے عہدِ حاضر کے نامور شاعر احمد فراز 78 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اِسی سال اردو زبان و ادب کے عاشق اور ممتاز ماہرِ غالبیات پروفیسر رالف رسل کا بھی نوے برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ اِسی برس مایہ ناز روسی ادیب الیگذانڈر زولشے نتسن نواسی سال کی عمر میں اِس دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے ا‌ِس ادیب نے سچ لکھنے اور کہنے کو ایک ادیب کی سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیا تھا۔ تین حصوں پر مشتمل دا گلاگ آرچی پلاگو اُن کی سب سے مشہور تخلیق ہے۔

Deutschland Ausstellung Das buddhistische Erbe Pakistans
پاکستان سے لائے گیا گندہارا تہزیب کا ایک نمونہ بون میں جاری نمائش میں

اِدھر جرمنی میں اِس سال جرائم پر تحقیق سے متعلق مقبول ٹیلی وژن سیریز ڈَیرِک میں ربع صدی تک مرکز ی کردار ادا کرنے والے اداکار ہورسٹ ٹاپرٹ پچاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

اِس سال کارٹونز کی دُنیا کے مشہور ترین کردار مکی ماؤس کی تخلیق کو اَسی برس پورے ہوگئے۔

یہ سال یہاں جرمنی کے شہر بون میں پاکستان کے مختلف عجائب گھروں سے لائے گئے نوادرات کی اُس شاندار نمائش کا بھی سال تھا، جو اکیس نومبر کو شروع ہوئی اور ابھی پندرہ مارچ تک جاری رہے گی۔ نمائش میں تقریباً تین سو پچاس نوادرات رکھے گئے ہیں، جو پشاور، سوات، لاہور اور ٹیکسلا کے عجائب گھروں سے مستعار لئے گئے ہیں۔

یہ سال چار عشروں سے زیادہ عرصے بعد کسی پہلی پاکسلتانی فلم کی بھارت میں نمائش کا بی سال تھا۔ یہ تھی، گیارہ ستمبر سن دو ہزار ایک کے دہشت پسندانہ واقعات کے پس منظر میں بننے والی فلم ’’خدا کے لئے‘‘۔