1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2015 پاکستان میں فلم، ادب اور فنونِ لطیفہ میں بہتری کا سال

تنویر شہزاد، لاہور27 دسمبر 2015

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں آنے والی کمی کے ساتھ ساتھ فلم، ادب اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں بہ تدریج بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HUDl
Pakistan Kino in Lahore
تصویر: DW/T. Shahzad

پاکستان کی فلمی صنعت کے لیے تو 2015 کا سال اس قدرشان دار رہا ہے کہ ماہرین اسے پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی کا سال قرار دے رہے ہیں۔ اس سال پاکستان میں بننے والی فلموں کی تعداد اور معیارایسا ہے کی اس کی مثال پچھلے بیس سالوں میں نہیں ملتی۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر اور مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے چیف ایگزیکٹیو ندیم مانڈوی والا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں 2015 ایسا سال تھا، جب پاکستانی فلموں نے بھارتی فلموں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان سے پاکستانی فلمی مارکیٹ کا 30 فیصد مارکیٹ شیئر واپس حاصل کر لیا۔ "اب سینما گھر بھارتی فلمیں دکھانے کے لیے انہیں خریدنے سے پہلے یہ سوچ بچار ضرور کرتے ہیں کہ کیا یہ فلمیں پاکستانی فلموں کے مقابلے میں انہیں منافع دے سکیں گی یا نہیں؟"

ندیم مانڈوی والا کے مطابق 2015 میں صرف 9 اردو پاکستانی فلموں نے ایک سو کروڑ روپے سے زائد کا بزنس کیا، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ مور، منٹو، شاہ، تین بہادر، جوانی پھر نہیں آنی، رانگ نمبر، بن رائے، جلیبی، کراچی سے لاہور اور دیکھ مگر پیار سے جیسی فلموں کے لیے سینما ہاؤسز نے اپنے دروازے بہ خوشی کھول دیے۔ "ان فلموں سے جو پیسہ کمایا گیا اس سے بننے والی فلمیں 2017 میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں مزید بہتری لانے کا باعث بنیں گی۔"

Pakistan Kino in Lahore
پاکستانی سینما کوالٹی کے حوالے سے بہتری کی جانب رواں دواں ہےتصویر: DW/T. Shahzad

2015 میں پاکستانی فلموں کی بے مثال کامیابی کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ اس کامیابی میں تمام پرانے اور سینئیر فن کاروں، ہدایت کاروں اور فلمسازوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ نئے ڈائریکٹرز نئے اداکاروں کے ساتھ مل کر پاکستان فلم انڈسٹری کی کامیابی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 2015 میں بننے والی تین درجن سے زائد فلموں میں اس مرتبہ سب سے زیادہ یعنی 19 فلمیں پشتو زبان میں بنیں جب کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی زبان میں صرف پانچ ہی فلمیں بن سکیں۔ اردو میں 17 کے قریب فلمیں اس سال پردہ سمیں کی زینت بنیں۔

2015 میں ایک خاص بات یہ بھی ہوئی کہ فلم انڈسٹری زیادہ ترکراچی کی طرف منتقل ہوتی دکھائی دی۔ ندیم مانڈوی والا کے مطابق 2015 میں فلموں کا 80 فی صد کام ملک کے اندر مکمل کیا گیا صرف آوازوں کی تدوین کے لیے بیرون ملک سے خدمات حاصل کی گئیں۔

پاکستان 2015 میں بھارتی فلموں کے لیے بیرون ملک سب سے بڑی مارکیٹ تھا۔ اس رجحان نے بھارتی فلموں کے سکرپٹ رائٹرز کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ متنازعہ اور نفرت پر مبنی مواد پیش کرنے سے گریز کریں۔ فینٹم پاکستان میں ریلیز ہی نہ ہو سکی جب کہ دنیا بھر سے پانچ سو کروڑ روپے کمانے والی بجرنگی بھائی جان کو پاکستانی مارکیٹ سے 20 کروڑ روپے ملے۔

پاکستان کے معروف ادیب و شاعر اور لاہور آرٹس کونسل کے سابق چیرمین عطا الحق قاسمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں فنون لطیفہ اور ادب و ثقافت کی سرگرمیوں میں 2015 میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ملک میں ادبی کانفرنسوں، پرفارمنگ آرٹس فیسٹیول، کتاب میلوں اور تھیٹر فیسٹیولز کی بہار دیکھنے میں آتی رہی۔ "پہلے ہم اکیلے ایسے کام کیا کرتے تھے اب لاہور لیٹریری فیسٹیول، خیال آرگنائزیشن، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور کئی تعلیمی ادارے بھی ایسے بڑے ایونٹ منعقد کروا رہے ہیں۔"

یاد رہے بیکن ہاؤس اسکول سسٹم نے بھی 2015 میں اسکول آف ٹومارو کے نام سے ایک بڑا تعلیمی میلہ کراچی میں منعقد کیا تھا، جس میں کئی ملکوں کے دانشوروں، فنکاروں اورصحافیوں نے شرکت کی تھی۔

2015 میں لوک ورثہ کے گمشدہ باب، کارٹون کی دنیا، اردو ناول کے سو سال اور ریڈیو کے مستقبل اور علاقائی زبانوں کے حوالے سے بھی ان کانفرنسوں میں بات کی گئی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے سنجیدہ اور مزاحیہ تھیٹر میں بھی بہتر پیش رفت دیکھنے میں آئی۔

پاکستان کے ممتاز ادیب، صحافی اور دانشور محمود شام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 2015 پندرہ میں بہت سی نئی کتابیں، اردو کے نئے ناول اور نئی بحثیں دیکھنے کو ملیں۔ نئی شاعری بھی 2015 میں سسنے کو ملی لیکن صحافت میں تحقیق کی کمی 2015 میں بھی دیکھی گئی۔ اردو ادب کی ڈیجیٹلائزیشن کا عمل بھی 2015 میں تیزی سے آگے بڑھا۔ پاکستانی میڈیا کی ٹیکنالوجی بہتر ہوتی جا رہی ہے لیکن مواد کمزور ہوتا جا رہا ہے۔

Pakistan Kino in Lahore
فلمی صنعت لاہور سے کراچی کی جانب منتقل ہوتی نظر آتی ہےتصویر: DW/T. Shahzad

2015 میں بھی علاقائی ادب کو قومی میڈیا میں مناسب جگہ نہیں مل سکی۔ پاکستان میں میڈیا دباؤ کا شکار رہا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2015 میں محمود شام کی بچوں کے لیے لکھی گئی کتاب "ملا نصیرالدین کے پرانے قصے نئے روپ میں" نیشنل بک فاونڈیشن نے دوبارہ شائع کی ہے۔ 1974 سے چھپنے والی اس کتاب کی 95000 کاپیاں اب تک بک چکی ہیں۔

ممتاز شاعر امجد اسلام امجد کے بقول 2015 کا ایک بڑا مسئلہ پچھلے کئی سالوں کی طرح یہ رہا ہے کہ اردو ریڈرشپ بہت زیادہ کم ہوگئی ہے۔ بچوں کے اردو ناول نایاب ہوتے جا رہے ہیں اب ان کی جگہ ہیری پوٹر لیتا جا رہا ہے۔ پیسے والوں نے اپنے بچے انگریزی اسکولوں میں داخل کروا دیے اور نئی نسل اپنے ہیروز، تاریخ اور ادب سے مکمل طور پر نا آشنا ہوتی جا رہی ہے،جب کہ اردو اسکولوں میں پڑھنے والوں میں تو کتابیں خریدنے کی ہمت ہی نہیں ہے۔ ان کے بقول 2015 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اردو زبان کی ترقی کے لیے خاطر خواہ اقدامات سامنے نہیں آ سکے۔ ان کے مطابق 2015 میں فیس بک بھی بچوں کی کتابوں سے دوری کا ایک اہم سبب بن کر سامنے آیا۔

پاکستان کے ممتاز پبلشنگ ہاؤس جہانگیر پبلیکیشنز کے ڈائریکٹر عدیل نیاز بتاتے ہیں کہ 2015 میں اردو ریڈرشپ میں مزید کمی دیکھی گئی ۔ ان کے بقول2015 میں ٹیکسٹ بکس، گائیڈز، جادو عملیات اور توہمات وغیرہ سے متعلق مواد والی اور سیاست دانوں کے اسکینڈلز والی کتابیں زیادہ بکیں، ادبی کتابوں کی سیل میں مزید کمی دیکھنے میں آئی۔

ان کے بقول تعلیمی نصاب میں بک ریڈنگ کا ایک مضمون بھی ہونا چاہیے۔اور بچوں کے لیے غیر نصابی علمی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے۔