1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

37 رکنی بھارتی وفد کی کشمیر روانگی

20 ستمبر 2010

آج بھارت کے ایک وفد کو جموں کشمیر میں اس سال جون سے کشمیر میں مظاہروں اور سکیورٹی دستوں کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں پر کشمیریرہنماؤں سے ملاقات کرنا تھیں۔ مگر رہنماؤں نےاس وفد سے ملاقات سے انکار کر دیا۔

https://p.dw.com/p/PHSm
بھارتی وزیر داخلہ پی۔ چدمبرمتصویر: AP

گزشتہ تین ماہ کے دوران سو سے زائد کشمیری بھارتی دستوں کی فائرنگ کے نتیجے میں لقمہء اجل بن چکے ہیں۔ پچھلے ہفتے بھارتی وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے اس ضمن میں ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا تھا، جس میں یہ طے پایا تھا کہ جموں کشمیر کے رہنماؤں سے مذاکرات کے لئے ایک 37 رکنی وفد کشمیر بھیجا جائے گا تاکہ اس منقسم ریاست کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں بدامنی میں کمی لائی جا سکے۔ مگر کشمیری رہنماؤں نے، جن میں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک شامل ہیں، بھارتی وفد سے ملاقات کرنے سے انکار کر کے نئی دہلی کی جلد بہتری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

میر واعظ عمر فاروق نے اس موقع پر کہا: ’’سب کو پتہ ہے کہ یہاں معصوم لوگ مر رہے ہیں اور کرفیو نے زیادہ تر کشمیر کو ایک جیل بنا کے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں بھارتی رہنماؤں کا یہ کہنا کہ وہ اس لئے کشمیر آئے ہیں، کہ حالات کا اندازہ لگا سکیں، ایک ناٹک لگتا ہے۔ ہم بھارتی حکومت کے اس قسم کے غیر سنجیدہ اقدامات کا ساتھ نہیں دے سکتے۔‘‘

Indien Kashmir Gewalt
گزشتہ تین ماہ کے دوران سو سے زائد کشمیری بھارتی دستوں کی فائرنگ کے نتیجے میں لقمہء اجل بن چکے ہیںتصویر: AP

سری نگر میں ریاستی اپوزیشن پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ وہ خود تو سری نگر میں ہونے والی ایسی ملاقاتوں میں شریک نہیں ہوں گی، البتہ وہ اپنی پارٹی کے ارکان کو نئی دہلی سے آنے والے وفد سے ملاقات کے لئے بھیجیں گی۔ محبوبہ مفتی نے کہا: ’’ان لوگوں کو میرے خیلات کا پتہ ہے۔ ہم نے اپنی کوئی پالیسی نہیں بدلی۔ کشمیر میں کرفیو فوری طور پر ختم ہونا چاہئے۔‘‘

نئی دہلی سے کشمیر جانے والا بھارتی وفد، جس کی سربراہی وزیر داخلہ پی۔ چدمبرم کر رہے ہیں، کشمیر میں کاروباری برادری اور سیاحتی صنعت کے نمائندوں سے بھی ملاقاتوں کا ارادا رکھتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے گزشتہ ہفتہ یہ بھی کہا تھا کہ جن لوگوں کو بھی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف ہے، ان کو انتظامیہ سے بات کرنی چاہئے۔

مگر کشمیر میں حالات پر قابو پا سکنا ابھی تک اس لئے مشکل نظر آ رہا ہے کہ وادی میں مظاہروں کے دوران ہونے والی ہر نئی موت کشمیری عوام کے بھارت کے خلاف جذبات میں اور بھی شدت کا سبب بن رہی ہے۔ من موہن سنگھ کی جماعت کانگریس پارٹی کے پون کمار کا کہنا تھا، ’’یہ ایک طویل سلسلے کی محض ایک کڑی ہے۔ ہمیں زیادہ پراُمید نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن اس مرتبہ ہم زمینی حقائق کا بہت قریب سے جائزہ لیں گے۔‘‘

کشمیر میں جون کے مہینے میں ایک نوجوان کی پولیس کی طرف سے چلائے گئے آنسو گیس کا ایک شیل لگنے کے نتیجے میں ہلاکت کے بعد سے وہاں صورت حال اب تک اس لئے حکام کے قابو میں نہیں آ سکی کہ مظاہرین اگر سکیورٹی دستوں پر پتھراؤ کرتے ہیں، کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہیں، تو مسلح دستوں کی فائرنگ اور زیادہ ہلاکتوں کی وجہ بنتی ہے۔ اسی لئے اب کشمیر میں یہ مظاہرے بظاہر تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔

رپورٹ: سمن جعفری

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں