1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

9 ججزکے خلاف نوٹس جاری

Grahame Lucas2 فروری 2011

پاکستانی سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے عبوری حکم نامے کے تحت حلف اٹھانے والے 9 ججوں کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی ان ججز پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1093Z
تصویر: AP Photo

عدالت نے اس وقت کے صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کے خلاف توہین عدالت سے متعلق درخواست کی سماعت کے لیے چیف جسٹس کو الگ سے ایک بینچ تشکیل دینے کی سفارش بھی کی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس ایم اے شاہد صدیقی کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے پینتالیس دن تک 3 نومبر 2007ء کو جنرل مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کی۔ عدالت نے اس مقدمے کی ابتدائی سماعت مکمل ہونے کے بعد 26جنوری کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

بدھ کے روز سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 3 نومبر2007ء کو فوج اور دیگر حکومتی اداروں نے، جو اقدامات کیے تھے وہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے اُس فیصلے سے قبل اٹھائے گئے تھے، جس میں ایمرجنسی کے نفاذ اور ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کی ممانعت کی گئی تھی۔

Asma Jahangir die Anwältin und Menschenrechtlerin aus Pakistan
اس سے قبل کسی بھی حاضر سروس ججوں کو اپنے ہی ساتھیوں کی جانب سے توہین عدالت کا مرتکب قرار دینے کی مثال نہیں ملتی، عاصمہ جہانگیرتصویر: AP

سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا مرتکب ہونے پر، جن ججوں کو نوٹس جاری کیے ہیں ان میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور جسٹس زاہد حسین کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری، جسٹس شبر رضا رضوی، جسٹس حسنات احمد، جسٹس خورشید انور اور جسٹس ظفر اقبال کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کی جسٹس یاسمین عباسی اور پشاور ہائی کے جسٹس جاوید رحیم شامل ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ کی جسٹس یاسمین عباسی کے وکیل بیرسٹر علی ظفرکے مطابق عدالت کا فیصلہ آ جانے کے بعد ان کے سامنے صرف دو راستے ہیں، جن کے تحت یا تو وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا دفاع کریں گے یا پھر وہ سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ ہی میں اپیل دائر کریں گے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قبل کسی بھی حاضر سروس ججوں کو اپنے ہی ساتھیوں کی جانب سے توہین عدالت کا مرتکب قرار دینے کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی جج کے خلاف قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پرکارروائی مقصود ہوتواس کے لیے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں مقدمہ دائرکیا جانا چاہیے۔

پاکستان بار کونسل کے نمائندے اور سابق وزیر قانون ڈاکٹرخالد رانجھا کے مطابق اب سپریم کورٹ کے فیصلے سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ججوں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کے دوران تمام وکلائے صفائی کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت کسی بھی جج کے خلاف قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پرکھلی عدالت میں مقدمے کی سماعت نہیں کی جا سکتی۔ اسی دوران بینچ میں شامل ججوں پر بھی متعدد اعتراضات کی درخواستیں کی گئیں۔ جس کے بعد بینچ کے پہلے سربراہ جسٹس ساحر علی نے خود کو اس مقدمے کی سماعت سے الگ کر لیا تھا۔ تاہم نئے بینچ کی تشکیل کے بعد ججوں پر اعتراضات سے متعلق تمام درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔

Pakistan General Präsident Pervez Musharraf
ان 9 ججوں نےسابق صدر مشرف کے عبوری حکم نامے کے تحت حلف اٹھایا تھاتصویر: picture-alliance/ dpa

دریں اثناء قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پی سی او ججوں کی جانب سے اس عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کیے جانے کا امکان ہے، جس کے بعد نئی قانونی موشگافیاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔

رپورٹ: شکور رحیم

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید