1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

IAEA کی فوکوشیما پلانٹ کے حوالے سے جاپان پر سخت تنقید

20 جون 2011

تقریباً تمام حکومتوں کے نمائندے اقوام متحدہ کے ایٹمی توانائی سے متعلق بین الاقوامی ادارے IAEA کے اُس اجلاس میں شریک ہیں، جو جاپانی جوہری پلانٹ فوکوشیما کے حادثے سے نتائج اخذ کرنے کے موضوع پر آج سے ویانا میں شروع ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/11fV2

IAEA کے سربراہ یوکیا امانو نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جاپان کے ایٹمی بحران کے نتیجے میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سلامتی کے خدشات پر مناسب اور فوری بین الاقوامی ردعمل کی ضرورت ہے۔

IAEA کے 151 رکن ممالک میں سے تقریباً 30 ممالک کے وُزراء جبکہ دیگر ملکوں کے بھی سرکردہ ترین افسران اس پانچ روزہ خصوصی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ جرمنی کی جانب سے ماحول کے شعبے کی اسٹیٹ سیکرٹری اُرسلا ہائنن ایسر اس کانفرنس میں شریک ہیں۔

آج اس کانفرنس کے آغاز پر جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں جاپان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ ملک IAEA کے اُس کنونشن کو عملی شکل دینے میں ناکام رہا ہے، جس کا تعلق ہنگامی حالات کی صورت میں ایٹمی تنصیبات کی حفاظت سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق زلزلے اور سونامی کے نتیجے میں فوکوشیما پلانٹ کی تباہی کے بعد ٹوکیو حکومت کو IAEA کے کنونشن میں درج رہنما اصولوں کو اپنانا چاہیے تھا، جو کہ اُس نے نہیں کیا۔

IAEA کے سربراہ یوکیا امانو
IAEA کے سربراہ یوکیا امانوتصویر: AP

اس کانفرنس میں دیگر امور کے علاوہ ایٹمی سلامتی کے بین الاقوامی معیارات کو مستحکم بنانے کے موضوع پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایک عبوری اختتامی اعلامیہ تیار کر لیا گیا ہے، جس میں زیادہ سلامتی اور معلومات کے بہتر تبادلے کے ساتھ ساتھ اس نکتے کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں اصل ذمہ داری کس کی ہو گی۔

اختتامی اعلامیے کے اس مسودے میں بھی محض تجاویز کا ذکر کیا گیا ہے، ایسی کوئی پابندیاں عائد نہیں کی گئی ہیں، جن کی باقاعدہ جانچ پڑتال بھی ہو سکتی ہو۔ اب تک ایٹمی تنصیبات کی سلامتی کا مسئلہ مختلف ممالک کا انفرادی معاملہ ہے اور ایسے کوئی سمجھوتے موجود نہیں ہیں، جن کی پاسداری لازمی ہو۔ آج 20 جون کو شروع ہونے والی یہ کانفرنس 24 جون تک جاری رہے گی۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں