1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

LED کی روشنی کے ذریعے ڈیٹا کی ترسیل

7 جون 2010

جرمن سائنسدانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل میں براڈ بینڈ کنکشن کا حصول محض ایک بٹن آن کرنے جتنا آسان ہوسکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/N82e
تصویر: dpa

اب تک گھروں اور دفتروں وغیرہ میں وائرلیس ڈیٹا ٹرانفسر کے لئے ریڈیو فریکوئنسی یعنی وائی فائی کنکشن کا استعمال کیا جاتا ہے مگر اس میں قباحت یہ ہے کہ اس میں ڈیٹا ٹرانفسر کرنے کی صلاحیت محدود ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مشکل یہ بھی ہے کہ ہمارے ارد گرد بڑی تعداد میں موجود ریڈیو فریکوئنسیز میں مزید کے لئے گنجائش نکالنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس امریکی آپٹیکل سوسائٹی کے مطابق نظر آنے والی فریکوئنسی یعنی روشنی میں جتنی چاہیں، بینڈ وڈتھ دستیاب ہے۔

جرمن دارالحکومت برلن میں قائم ٹیلی کمیونیکیش کے فرانہوفر ہائنرش ہیرٹز انسٹیٹیوٹ HHI کے محققین کا کہنا ہے کہ گھروں میں موجود بلبوں سے خارج ہونے والی روشنی کو بہت جلد خصوصی طریقے استعمال کرتے ہوئے ڈیٹا ٹرانسفر کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔

HHI کی محققہ یلینا وُوچچ کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ وہ روشنی استعمال کر رہے ہوں گے، جو آپ کے اردگرد پہلے سے موجود ہو گی۔ وُوچچ اور ان کے ساتھیوں نےصنعتی ڈائیوڈز سے خارج ہونے والی روشنی کے ذریعے 230 میگا بٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے وائر لیس ڈیٹا ٹرانسفر کرنے کا ایک طریقہ دریافت کیا ہے۔

تار کے بغیر ڈیٹا ٹرانسفر کرنے کے حوالے سے لائٹ ایمٹنگ ڈائیوڈز LEDs یعنی روشنی خارج کرنے والے ڈائیوڈز پر تحقیق برسوں سے جاری ہے۔ تاہم عام طور پر استعمال ہونے والی LEDs کی روشنی کے ذریعے 230 میگا بٹس کی رفتار سے ڈیٹا ٹرانفسر کرنے میں کامیابی حاصل کرنا اب تک ایک ریکارڈ ہے۔

Deutschland Telekommunikation Überwachung Symbolbild
فرانہوفر ہائنرش ہیرٹز انسٹیٹیوٹ کے محققین نے اس وائرلیس سسٹم سے 100 میگا بٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا ٹرانسفر کرنے والا نظام تیار کیا، جسے بہتر کرکے اس کی رفتار 230 میگا بٹس فی سیکنڈ تک لے جائی گئی۔تصویر: AP

فرانہوفر ہائنرش ہیرٹز انسٹیٹیوٹ کی محققہ یلینا وُوچچ اور ان کے ساتھیوں نے ابتدا میں نظر آنے والے اس وائرلیس سسٹم سے 100 میگا بٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا ٹرانسفر کرنے والا نظام تیار کیا، جسے بہتر کرکے اس کی رفتار 230 میگا بٹس فی سیکنڈ تک لے جائی گئی۔

اس کے باوجود کہ جدید ریڈیو وائرلیس نظام کے ذریعے بھی تقریباً اُتنی ہی رفتار سے ڈیٹا ٹرانسفر کیا جاسکتا ہے تاہم وُوچچ نے امید ظاہر کی ہے کہ زیادہ بہتر موڈیولیشن تکنیک سے وہ اور اُن کے ساتھی اپنے نظام کی رفتار مزید دُگنی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اس نظام کے تحت سگنل پیدا کرنے کے لئے کسی بھی کمرے میں موجود تمام روشنیوں کو ہم آہنگی کے ساتھ جلایا بجھایا جائے گا تاہم اس Flickering کو کوئی بھی محسوس نہیں کرسکے گا کیونکہ اس جلانے بجھانے کی رفتار یعنی موڈیولیشن کی شرح اُس حد سے لاکھوں گنا زائد ہوگی، جو عام انسانی آنکھ محسوس کر سکتی ہے۔

چونکہ نظر آنے والی یہ روشنی کسی کمرے سے باہر نہیں جاسکتی، اس لئے اس کے ذریعے ٹرانسفر کئے جانے والے ڈیٹا کو نہ تو ہیکرز سے کوئی خطرہ لاحق ہوگا اور نہ ہی دوسرے ریڈیو سگنلز کی طرح اِس میں غیر ضروی مداخلت کا امکان ہو گا۔

HHI کے محققین کے مطابق عام بلب سے خارج ہونے والی روشنی کو جن میں انکینڈیسنٹ اور فلوریسنٹ دونوں طرح کے بلب شامل ہیں، اتنی تیز رفتار سے جلایا بجھایا نہیں جا سکتا، لہٰذا اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام روشنیاں LEDs ہی ہوں۔

عام گھریلو استعمال کے لئے تیار کئے جانے والے LEDs ایک مخصوص بینڈ وڈتھ کے حامل ہوتے ہیں، جو کہ چند میگا ہرٹز تک ہی محدود ہوتی ہے تاہم وُوچچ اور ان کے ساتھی اِن LEDs میں سے خارج ہونے والی روشنی کے صرف نیلے حصے کو استعمال کرتے ہوئے اس بینڈ وڈتھ میں دس گنا اضافہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : امجد علی