1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

REDD مذاکرات: جنگلات بچائیں، پیسہ کمائیں

22 مارچ 2011

کہتے ہیں، پیسہ بھلا درختوں پر تھوڑے ہی اُگتا ہے تاہم بین الاقوامی ماحولیاتی کنونشن کے دائرے میں REDD کہلانے والے مذاکرات میں اُن ملکوں کے لیے پیسہ ہی پیسہ ہے، جو درختوں اور جنگلات کے تحفظ کے لیے جامع اقدامات کریں گے۔

https://p.dw.com/p/10fMf
جنوبی جرمنی: ایک جنگلتصویر: picture-alliance / Bildagentur Huber

REDD مخفف ہے، Reducing Emissions from Deforestation and Degradation کا، جس سے مراد ہے، جنگلات کی کٹائی اور اُنہیں پہنچنے والے نقصان کو روکتے ہوئے کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کرنا۔ ان مذاکرات پر اتفاقِ رائے دسمبر 2010ء میں میکسیکو کے شہر کنکون میں عمل میں آیا تھا، جہاں عالمی ماحولیاتی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ماہرین کا اندازہ ہے کہ فضا میں اُن ضرر رساں کاربن گیسوں کے اخراج کی تقریباً بیس فیصد مقدار کا تعلق جنگلات کی تباہی سے ہے، جو ہماری پوری آب و ہوا کو درہم برہم کر سکتی ہیں۔ جنگلات ہماری دھرتی کے پھیپھڑے کہلاتے ہیں کیونکہ اِن میں موجود درخت اور اِن کی زمین فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔

China Wald
چین کا ایک خوبصورت جنگلتصویر: picture alliance / landov

امیر صنعتی ملکوں میں قدیم جنگلات کا رقبہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہاں زیادہ تر جنگلات زرعی رقبے کے حصول یا صنعتیں لگانے کے لیے کاٹے جا چکے ہیں۔ اِس کے برعکس گرم خطوں کے ملکوں میں، جہاں قدیم مقامی قبائل صدیوں سے اپنے اردگرد کے ماحول کو احتیاط کے ساتھ سنبھال کر رکھتے رہے ہیں، جنگلات کی بے پناہ تباہی گزشتہ پانچ عشروں کے دوران دیکھنے میں آئی ہے۔

ناروے کی اُستوائی جنگلات سے متعلق فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر لارس لوئے وولڈ کے مطابق اِس تباہی کے نتیجے میں نہ صرف انواع کو بلکہ ماحول کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے:’’ہمیں اُن لوگوں کو انعام دینے کا کوئی طریقہء کار تلاش کرنا چاہیے، جنہوں نے واقعی اِن جنگلات کی ہمیشہ حفاظت کی ہے۔ اُنہی کی وجہ سے یہ قدیم جنگلات ابھی بھی باقی ہیں۔ اِس کے برعکس امیر صنعتی ملکوں میں زیادہ تر اُن لوگوں کو زرِ تلافی کی ادائیگی پر آمادگی پائی جاتی ہے، جو جنگلات کو تباہ کرتے ہیں۔‘‘

REDD کہلانے والے مذاکرات کا مقصد ہی یہ ہے کہ جنگلات کی حفاظت کرنے والوں کو پیسہ دیا جائے اور جنگلات تباہ کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ ان مذاکرات کا بنیادی خیال یہ ہے کہ فضا میں زیادہ ضرر رساں کاربن گیسیں خارج کرنے والے صنعتی ملک ترقی پذیر ملکوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ صاف کرنے کے اُس کام کا معاوضہ دیں، جو ان ملکوں کے جنگلات انجام دے رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ جنگلات کو بچانا ہے تو پیسہ خرچ کرنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اِس مَد میں سالانہ 30 ارب ڈالر تک کی رقم خرچ کرنا ہو گی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ دیا کس کو جائے، ریاست کو، جاگیرداروں کو، کاروباری اداروں کو یا پھر اِن جنگلات کی قدیم مقامی آبادی کو۔

Symbolbild Brandrodung, Afrika, Abholzung
براعظم افریقہ میں ایک جنگل، جسے آگ لگا دی گئی، ایک درخت سے ابھی تک دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

تیزی سے دولت کمانے کے لیے قیمتی درخت کاٹے جا رہے ہیں اور تیل جیسے معدنی وسائل تک رسائی یا پھر مویشیوں، پودوں یا ایک ہی طرح کے درخت اگانے کے لیے جنگلاتی رقبہ تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ کچھ حلقے اُن پلانٹیشنز کو بھی جنگلات قرار دیتے ہیں، جہاں بڑے بڑے رقبوں پر ایک ہی قسم کے درخت لگا دیے جاتے ہیں، مثلاً پام آئل کے حصول کے لیے پام ہی کے پیڑ اگائے جاتے ہیں۔

ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کے کرسٹوف تھِیس کے مطابق اِس طرح کی چالبازی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے:’’ایسا کرنا نہ صرف جانوروں اور پودوں کی انواع کے ساتھ ساتھ جنگلات پر انحصار کرنے والے انسانوں کے لیے ایک تباہی کا پیغام ہو گا بلکہ یہ ماحول کے ساتھ بھی دھوکہ ہو گا۔ اِس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو روکا تو کیا جا سکے گا، اُلٹا اِس کے برعکس ہو گا۔ ایسا نہیں ہونے دیا جانا چاہیے۔‘‘

مذاکرات کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور جنگلات کے تحفظ کے موضوع پر اگلا تبادلہء خیال اِس سال دسمبر میں جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں مجوزہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں عمل میں آئے گا۔ دوسری طرف جنگلات کی تباہی کا سلسلہ بھی بلا روک ٹوک جاری ہے اور ایک اندازے کے مطابق دُنیا بھر میں فی منٹ فٹ بال کے آٹھ میدانوں کے برابر رقبے پر پھیلے جنگلات کاٹے جا رہے ہیں۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں