1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

WTO میں شمولیت افغانستان کے لیے رکنیت سے بڑھ کر بہت کچھ

شادی خان سیف، کابل18 دسمبر 2015

افغان عوام کو رواں ہفتے اقتصادی اعتبار سے دو خاصی بڑی خوشخبریاں ملیں، جنہوں نے بلاشبه اس جنگ زده ملک کی عوام کو خاصی حد تک احساس دلا دیا ہے که استحکام اور خوشحالی بهی ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/1HQ5B
Afghanistan WTO-Konferenz
17 دسمبر، نیروبی، WTO میں شمولیت کی تقریب:اول نائب چیف ایگزیکٹیو محمد خان (بائیں) اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل روبیرٹو ازیویدو (دائیں)تصویر: Getty Images/AFP/T. Karumba

پہلے اتوار 13 دسمبر کو ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا نے کئی ارب ڈالر مالیت والے تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کا عملی آغاز کیا۔ پهر جمعرات 17 دسمبر کو عالمی ادارهٴ تجارت WTO نے افغانستان کے لیے اپنے دروازے کهول دیے۔ دنیا اور خطّے کے کئی ممالک کے لیے یه دونوں معاملات شاید غیر معمولی اہمیت کے حامل نه ہوں مگر افغانستان کے دارالحکومت کابل اور کئی بڑے شہروں میں افغان عوام نے اپنے انداز میں TAPI اور WTO کے حوالے سے ہوئی پیشرفت کا جشن منایا۔

مبصرین کے بقول ان دونوں امور پر ہوئی عملی پیشرفت نے صدر اشرف غنی کی حکومت کو خاصے نازک موڑ پر ایک مضبوط سہارا فراہم کیا ہے۔ تجزیه نگار نظام الدین مانتے ہیں که صدر غنی کی کئی پالیسیاں چونکه ملک میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات پر مرکوز ہیں، عوام تک ان کے فوری اور براه راست اثرات نہیں پہنچ پا رہے:’’ایسی اچهی خبروں کی بہت زیاده ضرورت محسوس کی جا رہی تهی، سیاست میں اکثر آپ کی عملی پالیسیوں سے بڑھ کر یه ضروری بن جاتا ہے که آیا میڈیا میں اور رائے عامه میں حکومت کے حوالے سے مثبت خبروں کا چرچا ہے یا منفی خبروں کا۔‘‘

صدر غنی کو ان کے بعض ناقدین طنزیه انداز میں اور بعض اظہار تحسین کے طور پر ’متفکر صدر‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ خود غنی نے ترکمانستان سے واپسی پر تاپی منصوبے کا خوب چرچا کیا اور یه عزم دہرایا که وه افغانستان کو جنگ و بربادی کے چنگل سے نکال کر علاقائی سالمیت اور خوشحالی کے مرکز میں بدل دینا چاہتے ہیں۔ تاپی منصوبے کے میزبان شہر مروه کا تاریخی پس منظر اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ غنی نے بے روزگاری سے پریشان افغانوں کو یه نوید بهی سنائی که جلد ہی اس منصوے کی بدولت روزگار کے لگ بھگ پچاس ہزار نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

افغانستان نے گیاره برس قبل عالمی ادارهٴ تجارت میں رکنیت کی درخواست جمع کروائی تهی۔ اس تنظیم کی رکنیت بین الاقوامی سرمایه کاری کو راغب کرنے کے حوالے سے بهی اہم ہے۔

WTO میں افغانستان کی رکنیت پر تبصره کرتے هوئے ملکی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر خان جان الکوزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلا شبه یه پیشرفت قابل ستائش ہے:’’ امید تو یه ہے که تجارت کی اس عالمی برادری میں شمولیت سے ہمارے لیے بہت سی نئی منڈیوں کے دروازے کهل جائیں گے اور بالخصوص ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے ہماری جو مشکلات ہیں، وه عالمی سطح پر اجاگر کی جا سکیں گی۔‘‘ الکوزئی کے بقول کابل حکومت کو اب بالخصوص پاکستان کے ساته ہوئے معاہدے میں اصلاحات پر زور دینا چاہیے۔

Afghanistan Landwirtschaft Melonen
افغان تاجراپنا تجارتی سامان پاکستان کے راستے بهارت کی سرحد تک تو پہنچا سکتے ہیں تاہم واپسی پر انہیں بهارتی سامان لادنے کی اجازت نہیں ہےتصویر: Getty Images/AFP/R. Alizadah

یاد رہے که افغانستان اور پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے APTTA کے نام سے ایک معاہده طے کر رکها ہے تاہم نئی دہلی اور کابل کا یه دیرینه مطالبه بے نتيجه رہا ہے که اسلام آباد بھارت کو بهی اس میں شامل کرے۔ اس وقت افغان تاجروں کو یه رعایت حاصل ہے که وه اپنا تجارتی سامان پاکستان کے راستے بهارت کی سرحد تک تو پہنچا سکتے ہیں تاہم واپسی پر انہیں بهارتی سامان لادنے کی اجازت نہیں ہے۔

ایک زمانہ تها، جب دنیا بهر میں خشک میوے کا 10 فیصد افغانستان سے آتا تها مگر قریب چار دہائیوں سے جاری جنگ و بدامنی نے بہت کچه روند ڈالا ہے۔ کابل حکومت اب تاپی جیسے منصوبوں کی مدد سے اس جنگ زده ملک کو ایک مرتبه پهر شاہراه ریشم کے زمانے والے خوشحال افغانستان میں بدلنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید