1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئرش گاؤں کے تاجروں کی طرف سے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ

امتیاز احمد4 اگست 2014

آئرلینڈ کے ایک گاؤں کے تاجروں نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ گاؤں آئرلینڈ کا وہ واحد علاقہ بن گیا ہے، جہاں مجموعی سطح پر اسرائیلی منصوعات استعمال نہ کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CoFj
تصویر: Reuters

آئرش انڈیپینڈینٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے کینوارا نامی گاؤں میں رہنے والے تاجروں، ہوٹلوں اور ریستورانوں کے مالکان اور ادویات فروخت کرنے والوں نے ’غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری‘ کے تناظر میں اس بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ آئرش فلسیطین یکجہتی مہم (IPSC) کے مطابق کینوارا آئرلینڈ کا وہ واحد علاقہ ہے، جہاں رہنے والوں نے اجتماعی طور پر اس اقدام کا اعلان کیا ہے۔

آئی پی ایس سی کے کوآرڈینٹر کیون سکوائرز کے مطابق، ’’جہاں تک میں جانتا ہوں، یہ واحد علاقہ ہے، جہاں ایسا ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے دیگر علاقوں میں بھی ایسا کوئی اقدام کیا گیا ہو، تاہم اس سلسلے میں ہمیں آگاہ نہیں کیا گیا۔ ہم کینوارا کے رہائشیوں کو اسلام کرتے ہوئے ان کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ دیگر علاقے بھی فلسطینیوں کو انصاف دلانے کے لیے ایسے ٹھوس اقدامات کریں گے۔‘‘

اسکوائرز نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ایک پر امن انداز سے اسرائیلی ریاست پر دباؤ ڈالنے کا اظہار ہے، تاکہ وہ فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ ختم کرے اور بین الاقوامی قانون کا احترام کرے۔

کینوارا میں اسرائیلی مصنوعات پر پابندی کے لیے در پردہ کام کرنے والوں میں وکی ڈونیلی پیش پیش رہی ہیں۔ انہوں نے پورے گاؤں میں مقامی تاجروں سے بات چیت کی اور اعلان کیا کہ یہ علاقہ اجتماعی طور پر اسرائیلی مصنوعات کے استعمال سے اجتناب برتے گا۔

وکی کا اس سلسلے میں کہنا تھا، ’’ہمیں نہایت شرم محسوس ہوئی جب آئرلینڈ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے اجلاس میں غزہ پر اسرائیلی کارروائی کی تحقیقات کے سلسلے میں پیش کردہ قرارداد میں اپنا ووٹ استعمال نہ کیا۔ آئرش حکومت نے ایسا نہ کر کے بچوں، خواتین اور مردوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے اپنے سفارتی دباؤ کا استعمال نہیں کیا۔ مگر ہمیں فخر ہے کہ کینوارا کے رہائشیوں نے اس بین الاقوامی مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

اس علاقے میں واقع ادوایات فروخت کرنے والی ایک دوکان کے مالک سیدھنا توبن کا اس سلسلے میں کہنا تھا، ’’ہمیں احتجاج کے اظہار کے لیے اسرائیلی مصنوعات دوکان سے خارج کرنے میں ذرا عار محسوس نہیں ہوئی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ہم ادویات کے اورجن کو دیکھتے ہیں اور پھر خریدتے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں مختلف کمپنیاں منتخب کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ ہم جب دیکھ لیتے ہیں کہ کسی دوا کی تیاری اسرائیل میں ہوئی ہے، تو ہم اسے ڈی اسٹاک کر دیتے ہیں اور اس کا متبادل ڈھونڈتے ہیں۔ یہ بہت سادہ عمل نہیں ہے کیوں کہ بعض کمپنیاں دیگر کمپنیوں کی مالک ہوتی ہے، تاہم ہماری کوشش ہے کہ ایسی ادویات استعمال نہ کی جائیں، جو اسرائیل میں تیار کی گئیں ہوں۔‘‘

واضح رہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت میں عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ گزشتہ تقریباﹰ ایک ماہ سے جاری اس تنازعے میں 18 سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔