1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئفل ٹاور کی جاذبیت کے سوا سو سال

26 جنوری 2012

تمام عالم میں یورپ اور بالخصوص فرانس کی علامت آئیفل ٹاور 125 برس کا ہوگیا ہے۔ ایسا نہیں کہ فرانس والے، جس آئفل ٹاور پر اب سینہ تان کر فخر کرتے ہیں ہمیشہ سے ہی وہ ایسا کرتے تھے۔

https://p.dw.com/p/13q25
تصویر: picture-alliance / dpa

آج سے 125 برس قبل جب اس دیوقامت مینار پر کام کا آغاز ہوا تو فرانس کے نازک طبع شہریوں کو بہت ناگوار گزرا۔ ان کے خیال میں خوشبوؤں سے معطر ان کے شہر کی خوبصورتی گہنائی جارہی ہے۔ یہ بات 26 جنوری 1887ء کی ہے، جب پیرس حکومت نے شہر کے وسط میں تین سو میٹر سے بھی بلند مینار کی بنیاد رکھی اور کام کا آغاز ہوا۔ اس مینار کے لیے انقلاب فرانس سے متعلق ایک عالمی نمائش کے داخلی دروازے کا مقام چنا گیا تھا۔ La Tour Eiffel کہلانے والے اس مینار کا نام اس کے ڈیزائنر الیگزانڈر گسٹاف آئفل سے منسوب ہے۔ یہ ٹاور دو سال کے اندر مکمل ہوا۔ فرانس والے اسے La dame de fer یعنی آہنی خاتون بھی پکارتے ہیں۔

60 Jahre Danach - Chronik - 1940
ہٹلر کی قیادت میں نازی فوج فرانس پر قبضے کے دور میںتصویر: AP

آئفل ٹاور دنیا بھر میں سب سے معروف ترین عمارت اور رقم دے کر دیکھا جانے والا ثقافتی اثاثہ ہے۔ اس فرانسیسی شاہکار کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کے لیے تین درجے بنائے گئے ہیں۔ اول اور دوئم درجوں تک چڑھنے کے لیے سیڑھیوں اور لفٹ میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں درجوں پر ریستوراں قائم ہیں۔ تیسرا درجہ ٹاور کا بلند ترین مقام ہے جہاں جانے کے لیے لفٹ کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

اوائل میں آئفل ٹاور کو محض بیس برس تک کے لیے ہی قائم رکھنے کا سوچا گیا تھا، جس کے بعد اسے منہدم کیا جانا تھا۔ تاہم اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر فرانسیسی حکام نے نہ صرف یہ خیال دل سے نکال دیا بلکہ 50ء کے عشرے میں ٹاور کے اوپر ایک اینٹینا نصب کرکے اس کی بلندی میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ آئفل ٹاور کے ڈیزائنر الیگزانڈر گسٹاف آئفل نے جب 1889ء میں آئفل ٹاور پر فرانسیسی پرچم لہرا کر اس کی نقاب کشائی کی تو شاید ہی اس کے ذہن میں یہ بات آئی ہو کہ سیاہ لوہے سے بنا یہ مینار عالمی عجوبے کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔

Frankreich Paris Eiffelturm
پیرس شہر کے پس منظر میںتصویر: AP

اوائل میں فرانس کے معتبر حلقے بھی اس دیوقامت مینار کے مخالف تھے اور اسے منہدم کرنے کے لیے شہریوں کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ حکومت بھی قریب ساڑھے سات ہزار ٹن اسٹیل سے بنے اس مینار کو 1909ء میں منہدم کرنے کی حامی بھر چکی تھی۔ مگر پھر مواصلاتی انقلاب کا دور آیا۔ ٹیلی گراف اور ریڈیو لہروں کی ترسیل میں اس بلند مینار کی افادیت عیاں ہوئی۔ یہیں سے 1921ء میں فرانس کے سرکاری ریڈیو کی پہلی نشریات سامعین کے کانوں تک پہنچی۔

دوسری عالمی جنگ میں ایک مرتبہ پھر آئفل ٹاور کی سلامتی خطرے میں پڑی جب فرانسیسی فوج نے اس کے کچھ حصوں کو اس لیے منہدم کرنے کا سوچا کہ شاید حملہ آور جرمن فوج اس کے ذریعے منفی پراپیگنڈہ کرے۔ تاہم آئفل ٹاور جنگ کی تباہیوں سے محفوظ رہا۔ جنگ کے خاتمے پر فرانس کو جرمنی سے آزادی ملی اور ایک مرتبہ پھر اس پر فرانسیسی پرچم لہرایا گیا۔ اس عظیم شاہکار سے عوامی لگاؤ اب اس سے کہیں زیادہ شدید ہے جتنا ایک صدی قبل تھا۔ محض گزشتہ برس ستر لاکھ سے زائد لوگ اسے دیکھنے کے لیے آئے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: افسر اعوان