1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کی نشستیں مختص کیوں نہیں کی جاتیں؟

2 فروری 2024

پاکستان میں آٹھ فروری کے قومی اور صوبائی پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں اور ملک کی مسلم اکثریتی آبادی کی طرح غیر مسلم اقلیتی شہری بھی اپنا ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

https://p.dw.com/p/4bxE3
Pakistan Rückgabe eines alten Sikh Tempels in Quetta
تصویر: DW

پاکستان کے اقلیتی ووٹر نہ صرف اپنے ووٹ ڈالنے کے حوالے سے پرعزم ہیں بلکہ وہ اقتدار کے ایوانوں میں اپنے نمائندوں کو بھی زیادہ تعداد میں دیکھنے کے خواہش مند اس لیے ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کو بھی یقینی بنا سکیں۔

پاکستانی الیکشن کمیشن کی جون 2022ء کی ووٹر لسٹوں کے مطابق ملک میں مذہبی اقلیتی آبادی کے رجسٹرڈ ووٹروں کی مجموعی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے، جن میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 18 لاکھ  41 ہزار 193 بنتی ہے۔

پاکستان میں ہندو شہری ملک کا سب سے بڑا مذہبی اقلیتی گروپ ہیں، جو 4.4 ملین افراد پر مشتمل اور ملکی آبادی کا 2.14 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان میں ہندوؤں کو درپیش بڑے مسائل میں جبری شادیاں، ذات پات کی بنیاد پر امتیاز اور غربت شامل ہیں۔

Pakistan Wahlen Lal Chand PTI
پاکستان کا اپنا نظام ہی ٹھیک نہیں ہے، تو انتخابی نظام کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟ لال چندتصویر: privat

ملکی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکن کے طور پر جنرل الیکشن میں حصہ لینے والے لال چند نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا اپنا نظام ہی ٹھیک نہیں ہے، تو انتخابی نظام کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟

انہوں نے کہا، ''اس الیکشن کے بارے میں کئی منفی اور کچھ مثبت رجحانات بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ لیکن جس طریقے سے ریاستی جبر بڑھ رہا ہے، راتوں رات دس دس اور چودہ چودہ سال قید کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں اور جس طرح الیکشن کمیشن کی جانب سے 'پری  پول رِگنگ‘ بھی جاری ہے، یہ سب کچھ انتہائی افسوسناک ہے۔‘‘

سابق ایم این اے لال چند نے مزید کہا، ''جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے خواتین کے لیے مختص کوٹے میں پانچ فیصد اضافہ کیا ہے، وہ اضافہ اقلیتوں کے کوٹے میں بھی کیا جائے اور محفوظ نشستوں پر جس طرح خرید و فروخت کی جاتی ہے، یا پھر وہ 'تحفے میں‘ دے دی جاتیں ہیں، یہ سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔ یہ سیٹیں پارٹی کارکنوں کو ہی دی جانا چاہییں، جو عوام کی نمائندگی تو کر سکیں۔‘‘

اسلام آباد کی رہائشی اور مسیحی خاتون شہری رومانہ بشیر بین المذاہب ہم آہنگی، اقلیتوں کے حقوق اور بالخصوص خواتین کی تعلیم اور فلاح و بہبود کے لیے اپنی خدمات کے باعث ایک معروف سماجی شخصیت ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ فی زمانہ اقلیتوں کے لیے مختص نشستیں ان کی آبادی کے لحاظ سے متناسب ہرگزنہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1980ء میں جو نشستیں مخصوص تھیں، وہی آج بھی ہیں۔ اس کے برعکس باقی ماندہ نشستوں کی تعداد میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اضافہ ہوا ہے، لیکن اقلیتوں کی سیٹیں بڑھانے کے بجائے کم ہی کی جاتی رہیں، ''یہی وجہ ہے کہ ملکی پارلیمانی اداروں میں اقلیتوں کی نمائندگی بھی کم ہوتی چلی گئی۔‘‘

رومانہ بشیر کے مطابق، ''ہمارے موجودہ انتخابی نظام کو اگر اقلیتی تناظر میں دیکھیں، تو یہ اقلیتوں کو تنہا کر دیتا ہے، حالانکہ اقلیتوں کو بھی مرکزی دھارے میں شامل ہونا چاہیے تا کہ ان کے مسائل بھی بات ہو سکے کیونکہ ان کے مسائل بھی دراصل قومی مسائل ہیں۔‘‘

Pakistan Romana Bashir Aktivistin
قلیتوں کے لیے مختص نشستیں ان کی آبادی کے لحاظ سے متناسب ہرگزنہیں, رومانہ بشیرتصویر: privat

اسلام آباد کی اس معروف مسیحی سماجی کارکن نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''ہمارے پدر شاہی معاشرے میں، جہاں ایک عام عورت کے لیے اپنے حقوق کی جنگ لڑنا بہت مشکل ہے، وہاں اقلیتی خواتین میں سے ہر ایک کو تین طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ غیر مسلم ہے، دوسرے یہ کہ وہ عورت ہے، اور تیسرے اپنی برادری میں بھی اختیارات پر مردوں کے بےجا غلبے کے مقابلے کا چیلنج۔ یعنی پاکستان کی غیر مسلم خواتین ملک میں مسلم خواتین سے بھی کہیں پیچھے ہیں۔ اس لیے سیاسی پارٹیوں کو پابند بنایا جانا چاہیے کہ جس طرح پارلیمان میں خواتین کے لیے مختص سیٹوں میں اضافہ کیا گیا ہے، اسی طرح ان غیر مسلم خواتین کے لیے بھی پارلیمنٹ میں نشستیں مختص کی جائیں تا کہ وہ ان چیلنجز سے نبرد آزما تو ہو سکیں۔‘‘

پنجابی سکھ سنگت کے چیئرمین گوپال سنگھ چاؤلہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانمیں ان کی مذہبی برادری کے افراد کی تعداد 50 ہزار کے قریب ہے۔ ننکانہ صاحب میں تقریباﹰ 500 ایسے گھرانے آباد ہیں، جو کہیں اور سے وہاں پہنچے اور ان کے شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث کئی ووٹر ابھی تک غیر رجسڑڈ ہیں۔ چاؤلہ کے بقول ان کی کمیونٹی کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس کے بہت سے ووٹ آج تک رجسٹر ہی نہیں ہو سکے۔

گوپال سنگھ کے مطابق، ''ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے سیاسی امیدوار براہ راست جنرل سیٹوں پر الیکشن نہیں لڑ سکتے اور ریزرو سیٹوں پر انتخاب کے باعث پارلیمانی اداروں کے رکن بننے والے افراد اقتدار کے ایوانوں میں اقلیتی برادریوں کے مسائل حل نہیں کر پاتے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی یہ حق دیا جائے کہ ملکی قانون ساز اداروں میں ہم خود اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کر سکیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات سے پاکستانی اقلیتی برادریوں کو توقعات تو بہت ہیں کہ کاش ان کے مسائل بھی بہتر طور پر حل کیے جا سکیں۔‘‘

پاکستان کی آبادی میں احمدی برادری کی تعداد بھی کافی ہے۔ احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی نائلہ ظفر (نام بدل دیا گیا) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ گزشتہ ایک عشرے سے درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے مطابق معاشرے میں جیسی ہی کسی کو یہ علم ہو جائے کہ ان کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے، تو انہیں نفرت اور کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ''اس لیے ہماری برادری کے ارکان اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔‘‘

نائلہ ظفر نے کہا، ''پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت سب شہری برابر ہیں۔ لیکن یہ کیسی برابری ہے کہ برس ہا برس سے ایک خاص اقلیت کو اس کے بنیادی حقوق نہیں دیے جا رہے۔‘‘

نائلہ ظفر نے بتایا، ''احمدی شہری ووٹ کیسے ڈالیں؟ جب انہیں پورے ملکی نظام سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے۔ یہ واضح طور پر مذہب کے نام پر تفریق ہے۔ پاکستان میں احمدی شہریوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، لیکن ہم اپنے ووٹ کے حق سے عملاﹰ محروم ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے ہم بھی ووٹ دینا چاہتے ہیں، منتخب عوامی اداروں میں اپنی نمائندگی بھی چاہتے ہیں، لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ووٹر لسٹیں ایک ہوں۔ مشکل یہ ہے کہ خواہشات اور دستیاب امکانات میں فاصلے بہت ہیں۔‘‘