1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آن لائن کمنٹ کوئی جرم نہیں، بھارتی عدالت

افسر اعوان24 مارچ 2015

بھارتی سپریم کورٹ نے منگل کو ملک میں نافذ اس متنازعہ قانون کو ختم کر دیا ہے، جس میں ’جارحانہ‘ آن لائن کمنٹس یا تبصروں کو ایک قابل سزا جرم قرار دیا گیا تھا۔ آزادیٴ اظہار کے حامیوں نے اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EwHF
تصویر: imago/Schöning

چوبیس مارچ کو بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے فیصلہ دیا کہ ملک کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ میں 2009ء میں کی جانے والی ترمیم غیر آئینی ہے۔ اس ترمیم کو سیکشن 66A کہا جاتا تھا اور اسے آزادیٴ اظہار پر انتہائی سخت قدغن قرار دیا جاتا تھا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس آر ایف ناریمان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’سیکشن 66A غیر آئینی ہے اور ہمیں اس کو ختم کرنے میں کوئی تامّل نہیں۔‘‘ فیصلے میں مزید کہا گیا، ’’سیکشن چھیاسٹھ اے کے باعث عوام کا جاننے کا حق براہ راست متاثر ہوتا ہے۔‘‘

سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اس ترمیم کی قانونی حیثیت پر غور کرے، جس کے تحت سوشل میڈیا پر کسی جارحانہ یا دھمکی آمیز تبصرے کی صورت میں ذمہ دار فرد کو تین برس تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی تھی۔

سال 2012ء میں ایک نوجوان خاتون کو اسی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ اس نے سخت گیر موقف رکھنے والے ایک مقامی سیاستدان کے انتقال پر ممبئی شہر کو بند کرانے کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس خاتون پر لگائے جانے والے الزامات تو ممبئی کی ایک عدالت نے بعد ازاں ختم کر دیے تھے تاہم اس کے بعد بھارت میں آن لائن سنسر شپ کے موضوع پر ایک بحث کا آغاز ہو گیا تھا۔

سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اس ترمیم کی قانونی حیثیت پر غور کرے
سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اس ترمیم کی قانونی حیثیت پر غور کرےتصویر: CC-BY-SA-3.0 LegalEagle

دو خواتین کی گرفتاری کے بعد اس ترمیم کے خلاف ملکی سپریم کورٹ میں یہ پٹیشن قانون کی ایک طالبہ شریا سنگھال کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ سنگھال نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک بڑی فتح قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ رہا ہے، اس لیے یہ بات بہت اہم تھی کہ ہم اس اہم حق کا تحفظ کریں:’’حکومتوں کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہوتا ہے۔ قانون لوگوں کے لیے ہونا چاہیے۔‘‘

گزشتہ ہفتے ایک 19 سالہ نوجوان وکی خان کو اس لیے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا کیونکہ اس نے فیس بُک پر ایک ایسا کمنٹ دیا تھا، جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک مقامی وزیر کے الفاظ تھے۔ تاہم اس وزیر نے ایسا کوئی بیان جاری کرنے کی تردید کر دی تھی۔ خان پر بھی یہ الزام بعد ازاں ختم کر دیا گیا تاہم خان نے اسے خود اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب قرار دیا۔ خان کے لیے یہ تصور ہی ہولناک تھا کہ اُسے اس الزام میں تین سال تک کی سزائے قید بھی ہو سکتی تھی۔

بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے کہا ہے کہ حکومت مکمل فیصلہ سامنے آنے کے بعد اس پر کوئی رد عمل ظاہر کرے گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کا مقصد ایماندارانہ تنقید کا راستہ روکنا نہیں تھا۔