1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسامہ بن لادن شہید‘، عمران خان کی زبان پھسل گئی: تبصرہ

شامل شمس ع ت، م م
26 جون 2020

پاکستانی وزیر اعظم نے پارلیمان سے ایک خطاب کے دوران القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو ’شہید‘ کہہ کر پکارا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار شامل شمس کے مطابق یہ بیان عمران خان کے ذاتی اور سیاسی نظریات کے عین مطابق ہے۔

https://p.dw.com/p/3eOXf
تصویر: Reuters/J. Ernst

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دل میں شدت پسند مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، ان میں وہ شدت پسند بھی شامل ہیں، جنہوں نے پاکستان اور افغانستان میں مسلح حملے کیے۔ عمران خان امریکا پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے افغانستان اور پاکستان کے خطے کو عدم استحکام کا شکار بنا دیا۔ وہ طالبان کی عسکریت پسندی کو امریکی فوجی مداخلت ہی کا ردعمل قرار دے کر جائز بتاتے آئے ہیں۔ مگر القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو 'شہید‘ قرار دینا خود عمران خان کے لیے بھی ایک نئی لیکن نہایت نچلی سطح کی بات ہے۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی 'زبان پھسل گئی تھی‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک 'فروئڈیئن چُوک‘ ہے اور وہ اپنے لاشعوری خیالات منکشف کر بیٹھے ہیں۔

25 جون کو اسلام آباد میں ملکی پارلیمان سے خطاب میں عمران خان کو کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات پر جاری تنقید سے متعلق غالباً اپوزیشن کے تحفظات دور کرنا تھے، مگر وہ موضوع سے ہٹ گئے تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کئی امور بہ شمول دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے پاکستان کے لیے نقصانات پر بھی گفتگو کی۔ پچھلے 19 سال سے یہی ان کا سیاسی بیانیہ رہا ہے۔

پاکستان کا ریاستی بیانیہ

اسامہ بن لادن مئی 2011 میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ امریکی عسکری کارروائی میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اسلام آباد حکومت نے اس دور کے امریکی صدر باراک اوباما سے اس معاملے میں غالباً تعاون کیا تھا۔ شاید اس وقت اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ رہا ہو۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن پاکستان کی سب سے اہم فوجی تربیت گاہ والے شہر میں چھپے ہوئے تھے۔ اس سے پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات پیدا ہوئے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان نے القاعدہ اور طالبان قیادت کے خلاف لڑنے کے بدلے واشنگٹن حکومت سے اربوں ڈالر وصول کیے تھے۔

Shams Shamil Kommentarbild App
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار شامل شمس

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا مشکوک کردار مغربی دنیا کے لیے ہمیشہ سے ہی پیچیدہ معاملہ رہا ہے کیوں کہ ایک طرف تو مغربی دنیا کو دہشت گردی کے خلاف پاکستانی مدد کی ضرورت رہی اور دوسری جانب اس کا پاکستان کی خارجی اور داخلی پالیسیوں پر کوئی اختیار بھی نہیں تھا۔

شدت پسندوں کے لیے ہم دردی پاکستان میں ریاستی اور سماجی سطح پر بہت اندر تک موجود ہے۔ یہ وہ آلہ ہے، جس کے ذریعے بھارت مخالف جذبات کو قائم رکھا جاتا ہے جب کہ فوجی جرنیلوں کا طاقت ور کردار بھی اس سے نتھی ہے۔

عمران خان کا فوج کے ساتھ قریبی تعلق ڈھکا چھپا نہیں۔ اس لیے عمران خان نے بن لادن کے بارے میں جو کچھ کہا وہ ریاستی پالیسی کا عکس ہے۔ اس لیے صرف وزیر اعظم پر الزام دھرنا مناسب نہیں کیوں کہ وہ وہی کچھ کہہ رہے ہیں، جس پر پاکستان کے طاقت ور طبقے یقین رکھتے ہیں۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ شاید اسے عوامی سطح پر کہا نہیں جاتا اور پارلیمان میں تو بالکل بھی نہیں۔

لڑائی میں کون کس طرف؟

عمران خان کو اپنے موقف کے اظہار کا مکمل حق حاصل ہے اور اگر وہ واقعی بن لادن کو 'شہید‘ سمجھتے ہیں، تو انہیں اپنے بیان پر قائم رہنا چاہیے۔ انہیں امریکا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی معاونت نہیں کرے گا۔ دہشت گردی کے خلاف اسلام آباد حکومت نے حقیقی طور پر ویسے بھی تعاون کبھی کیا ہی نہیں۔

پاکستان کو بھی خود کو دہشت گردی سے متاثرہ ملک بتانے کا سلسلہ بند کر نا چاہیے۔ عمران خان دنیا کو بار بار یاددہانی کراتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہو کر بھاری قیمت چکائی ہے۔ سن 2001 سے اب تک ہزاروں عام شہری اور فوجی اہلکار اس جنگ کا شکار بن چکے ہیں۔ اگر ان بے قصور افراد کو قتل کرنے والے 'شہید‘ ہیں، تو وزیر اعظم خان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے ملک کی 'قربانی‘ کا ذکر کریں۔

محترم وزیر اعظم! پاکستانی عوام دہشت گردی سے بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ لبرل سیاست دان جو ان دہشت گردوں کے خلاف کھڑے ہوئے، عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے، جب کہ آپ نے طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے۔ آپ نے شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف کھڑے ہو کر کوئی قیمت نہیں چکائی۔

اور محترم مسٹر خان! آخر میں یہ بھی سن لیجیے کہ روشن خیال اور ترقی پسند افراد ریاستی بیانیوں اور آپ کی پالیسیوں کو چیلنج کرتے رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے دل میں شدت پسندوں کے لیے ہم دردی ہمیشہ سے تھی، مگر آپ نے اب خود کو مزید آشکار کر دیا ہے۔ پاکستان میں شدت پسندی کے خلاف لڑائی جاری رہے گی۔ بن لادن کی تعریف کر کے آپ نے واضح کر دیا ہے کہ آپ اس لڑائی میں کس طرف کھڑےہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں