1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد، عورت مارچ کا پرامن اہتمام

عبدالستار، اسلام آباد
8 مارچ 2021

پاکستان دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت اسلام آباد میں بھی خواتین مارچ کا انعقاد کیا گیا، جہاں خواتین تنظیموں نے اپنے حقوق کے حق میں اور خواتین ڈے کے حوالے سے نعرے لگائے۔

https://p.dw.com/p/3qLuB
Pakistan Internationaler Frauentag Demonstration Aurat March Rally
تصویر: Abdul Sattar/DW

اسلام آباد میں عورت مارچ کا انعقاد عوامی ورکرز پارٹی، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اور مختلف خواتین تنظیموں نے کیا تھا۔ اس مارچ میں نیشنل پارٹی، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں کے کارکنان بھی شامل تھے۔

اس موقع پر خواتین نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر خواتین کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم اور نا انصافیوں کے حوالے سے نعرے لکھے ہوئے تھے۔

مارچ کے شرکاء 11 بجے سے ہی اسلام آباد پریس کلب کے سامنے جمع ہونا شروع ہوگئے، جہاں پولیس کی بھاری نفری موجود تھی اور اس نے خاردار تاروں سے تمام راستوں کو بلاک کیا ہوا تھا۔  مارچ کے شرکاء میں یہ باتیں گردش کر رہی تھیں کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے باقاعدہ تحریری اجازت نہیں دی ہے لیکن مارچ کے شرکا اس بات پر بضد تھے کہ وہ ہر حالت میں مارچ کریں گے۔

 تقریبا دو بجے کے قریب شرکاء نے ڈی چوک کی طرف مارچ کرنا شروع کردیا۔ ڈی چوک پر خواتین رہنماؤں نے اس مارچ کے حوالے سے اپنے مطالبات پیش کیے اور پرجوش نعرے بازی کی۔ 

یہ بھی پڑھیے: اب بات جسم سے آگے بڑھ چکی ہے

پر امن مارچ

گزشتہ برس کی نسبت یہ مارچ پرامن رہا کیونکہ اس مرتبہ لال مسجد یا جامعہ حفصہ کی طرف سے اس مارچ کے حوالے سے کوئی شدید ردعمل سامنے نہیں آیا۔ مارچ کے شرکا نے اس مرتبہ بہترین انتظامات کیے تھے۔

پہلی لائن میں صرف خواتین تھیں۔ دوسری قطار میں فیملی اور تیسری لائن میں وہ مرد حضرات تھے، جومارچ کو سپورٹ کرنے کے لیے آئے تھے۔ میڈیا کے افراد کے لیے خصوصی بیجیز جاری کیے گئے تھے جبکہ رضاکاروں کے لیے مختلف طرح کی یونیفارم بھی تیار کی گئی تھی تاکہ نظم و ضبط کو برقرار رکھا جا سکے۔

گزشتہ برس کی برعکس اس دفعہ جامعہ حفصہ یا لال مسجد کے طلباء و طالبات نے اس کے مقابلے میں کوئی اور مارچ کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس لیے شرکاء مارچ میں کافی جوش و خروش تھا۔ کئی مبصرین کے خیال میں اس بار مارچ کی مخالفت اس شدومد کے ساتھ نہیں ہوئی، جتنا کے گزشتہ برس ہوئی تھی۔ تاہم پریس کلب کے سامنے جماعت اسلامی کی ایک ریلی عافیہ صدیقی اور خواتین ڈے کے حوالے سے نکالی گئی۔

یہ بھی پڑھیے:صرف عورت آزادی مارچ یا کوئی عملی کام بھی؟

خواتین مارچ پاکستان میں گزشتہ کچھ برسوں سے بڑے پیمانے پر منایا جارہا ہے۔ گوکہ کچھ خواتین تنظیموں کی کارکنان کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام جنرل ضیاء کے دور سے چل رہا ہے۔ تاہم اس میں شدت گزشتہ کچھ برسوں میں آئی ہے اور اب نوجوان خواتین کی ایک بڑی تعداد اس میں شرکت کرتی ہے جبکہ محنت کش خواتین بھی بڑے جوش و خروش سے ان مارچیز میں حصہ لیتی ہیں۔

Pakistan Internationaler Frauentag Demonstration Aurat March Rally
گزشتہ برس کی نسبت یہ مارچ پرامن رہا تصویر: Abdul Sattar/DW

نظریاتی تقسیم

کئی ناقدین کے خیال میں اس طرح کے مظاہروں نے معاشرے کو قدامت پرست اور جدت پرستوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما شازیہ خان کا کہنا ہے کہ جو لوگ عورتوں کے حقوق کے مخالف ہیں اس طرح کے ایونٹس نے ان کے چہروں کو بے نقاب کر دیا ہے۔"

شازیہ نے کہا، '' ان مارچیز سے بڑے پیمانے پر خواتین میں شعور پیدا ہو رہا ہے اور ان لوگوں کو وحشت ہو رہی ہے، جو نہیں چاہتے کہ خواتین باہر نکلیں، نوکری کریں یا سیاست میں حصہ لیں، بزنس کریں اور دوسرے انتظامی امور سنبھالیں۔ ان ریلیوں نے ایسے قدامت پرستوں کو بے نقاب کردیا ہے، جو عورت کو صرف گھر میں بند کر کے رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دھمکیوں کے ذریعے سے مارچ کو آنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے مقاصد میں ناکام ہوئے۔‘‘

شازیہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ان مارچیز میں صرف اشرافیہ گھرانے کی خواتین آتی ہیں، ''پورے ملک میں ہونے والے مار چیز میں محنت کش خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے پنجاب میں بھٹہ مزدوروں کی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے ان مارچیز میں شرکت کی ہے۔ بالکل اسی طرح اسلام آباد، کراچی اور دوسرے شہروں میں کام کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اس مارچ میں شرکت کی ہے جبکہ مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی اس میں حصہ لیا ہے تو یہ کہنا کہ یہ مارچ صرف چند خواتین تک محدود ہیں بالکل غلط ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے:یومِ نسواں، دن کا ارتقا اور حقوق کا حصول

بلوچ خواتین کے نام

شازیہ خان کا کہنا تھا کہ عوامی ورکرز پارٹی نے ان مارچیز کو بلوچ خواتین کے نام وقف کیا ہے، ''بلوچ خواتین نے نہ صرف ریاستی جبر کا مقابلہ کیا بلکہ اپنے پیاروں کے لیے سڑکوں پر بھی نکلیں۔ ان کی بہادری اور جرات کو آج ساری خواتین سلام کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہے۔ انہوں نے خواتین کو حوصلہ دیا ہے اور انہیں یہ بتایا ہے کہ ریاستی جبر ان کے ارادے کے سامنے کچھ نہیں ہے۔ اسی لیے عوامی ورکرز پارٹی نے یہ مار چیز بلوچ خواتین کے نام کیے ہیں۔‘‘

شعور کی روشنی

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکنان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مارچ خواتین میں بڑے پیمانے پر شعور بیدار کرتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی انیس ہارون کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں ان مارچیزنے خواتین کے اندر بڑے پیمانے میں شعور پیدا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:عورت مارچ میں شرکت کریں تو شاید سمجھ آ جائے

انیس ہاروں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، ''ان مارچیز نے رجعت پسند قوتوں کو للکارا ہے اور بڑے پیمانے پر خواتین میں ان کے حقوق کے حوالے سے شعور بیدار کیا ہے۔ خواتین نے جنرل ضیاء الحق کے دور جبر میں بھی اپنے حقوق کے لیے ریلیاں نکالیں اور وہ اب بھی کسی سے خوفزدہ نہیں ہے۔ ان مارچیزنے پورے معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بحث و تمحیص کو بھی فروغ دیا ہے اسی لیے کچھ قدامت پرست ان سے خوفزدہ ہیں۔‘‘

بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ صرف عورت مارچ سے خواتین کے حقوق حاصل نہیں کیے جا سکتے بلکہ اس کے لیے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹ کی انساننی حقوق کی کمیٹی کی سابق چیئرپرسن نسرین جلیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے انہیں خود بھی کوئی شعور نہیں ہے اور تعصب کی بنیاد خبروں میں ڈالی جاتی ہے جہاں ماں اپنے بیٹوں کو ترجیح دیتی ہے اور ان کے ناز و نخرے کو اٹھاتی ہے۔اس کے علاوہ پدر شاہی نظام اور جاگیردارانہ رسم و رواج خواتین کے حقوق کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔‘‘