1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلحے کا غیر منظم کاروبار مختلف خطوں کو غیر مستحکم بنا رہا ہے: بان کی مون

Kishwar Mustafa4 جولائی 2012

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ یہ ایک ذلت آمیز بات ہے کہ دنیا میں اس وقت اسلحے کی تجارت سے متعلق کوئی ضابطہ نہیں پایا جاتا۔

https://p.dw.com/p/15QxP
تصویر: picture-alliance/dpa

 یہ بات بان کی مون نے اقوام متحدہ کے زير اہتمام اسلحے کی عالمی تجارت کے بارے ميں نیو یارک منعقدہ ايک کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔

یہ اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی مسائل سے دوچار ہو گیا تھا۔ اسے کل پير کو شروع ہو کر 27 جولائی تک جاری رہنا تھا۔ ليکن فلسطينيوں کی شرکت کے سوال پر تنازعہ شروع ہو گيا جسے کانفرنس کے آغاز سے چند گھنٹے قبل تک بھی حل نہيں کيا جا سکا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنی افتتاحی تقرير منسوخ کر دی تھی۔ عرب ممالک کا مطالبہ تھا کہ فلسطينيوں کو بھی کانفرنس ميں نمائندگی ملنی چاہيے۔ اس پر اسرائيل نے کانفرنس سے واک آؤٹ کر جانے کی دھمکی دی تھی۔

یہ اجلاس ایک روز کی تاخیر سے شروع ہوا جس کے آغاز پر بان کی مون نے ایک بیان میں کہا،’اس وقت دنیا بھر میں انتہائی غیر منظم طریقے سے جاری اسلحے کی ترسیل غیر فوجی تنازعات میں جلتی پر تیل کا کام دے رہی ہے‘۔ بان کی مون نے مزید کہا کہ اسلحے کی غیر منظم تجارت سے دنیا کے مختلف خطے غیر مستحکم ہو رہے ہیں اور اس سے دہشت گردوں اور مجرموں کے نیٹ ورکس کو مزید تقویت مل رہی ہے۔

Schweden Waffenhandel
ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کی تجارت میں سویڈن بھی کافی آگے ہےتصویر: picture-alliance/Runesson Hansscanpix Sweden

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا،’ہماے پاس عالمی سطح پر روایتی ہتھیاروں سے نمٹنے کے لیے کوئی کثیر الجہتی معاہدہ نہیں پایا جاتا، یہ ایک ذلت آمیز امر ہے‘۔ بان کی مون نے مزید کہا کہ،’دنیا میں ضرورت سے زیادہ ہتھیار پائے جاتے ہیں جبکہ امن کی کوششوں کے لیے کوئی مالی وسائل فراہم نہیں کیے جا رہے۔ بان کی مون نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ سالانہ فوجی اخراجات کس طرح ایک ٹرلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور گزشتہ 6 دہائیوں میں اقوام متحدہ کے امن دستوں پر جتنے پیسے خرچ ہوئے ہیں، وہ موجودہ دور میں چھ ہفتوں میں عالمی سطح پر اٹھنے والے فوجی اخراجات سے بھی کم تھے۔

بان کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کی برآمدات اور سخت قومی قانون سازی کے لیے ایک معیار طے کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اسلحے کی عالمی تجارت میں دراصل قومی مفادات پنہاں ہیں۔

امریکا نے اسلحے کی عالمی تجارت کے بارے ميں کسی ممکنہ معاہدے کے لیے ان مذاکرات کی تیاری میں سات سال صرف کیے۔ امریکا اب تک اسلحے کی تجارت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ دنیا بھر میں روایتی ہتھیاروں کی فروخت کا 40 فیصد امریکا ہی کرتا ہے۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے برطانیہ، فرانس جرمنی اور روس کا۔

Symbolbild Waffenhandel USA Taiwan
اسلحے کی تجارت کا سب سے بڑا ملک امریکاتصویر: AP Graphics/DW

امریکا مختلف ہتھیاروں کے لیے سالانہ 6 ارب گولیاں تیار کرتا ہے۔ سفارتکاروں کے مطابق امریکا اسلحے کی تجارت سے متعلق معاہدے میں جنگ میں استعمال کیے جانے والے سامان کو شامل نہیں کرنا چاہتا ہے۔ چین اس معاہدے میں چھوٹے ہتھیاروں کی فروخت کو شامل نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو ایک بھاری تعداد میں یہ ہتھیار فروخت کرتا ہے۔ چین روس اور عرب ممالک کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کا خاکہ سیاسی جوڑ توڑ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔

ادھر یورپی قومیں اسلحے کی تجارت کے معاہدے کے مزید شفاف ہونے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ نیو یارک منعقدہ اجلاس سے پہلے ہی برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور سویڈن کے وزرائے تجارت نے ایک ایسے معاہدے کا مطالبہ کیا جس میں چھوٹے اور ہلکے ہتھیاروں سمیت تمام روایتی ہتھیار شامل ہوں۔ نیز ہر طرح کے جنگی سامان اور ان سے متعلق ٹیکنالوجی کو بھی شامل کیا جائے۔

Km/Aa/ (AFP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں