1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسٹین سوامی کی زیر حراست موت  کی 'جوابدہی‘ کا مطالبہ

جاوید اختر، نئی دہلی
6 جولائی 2021

حقوق انسانی کے بھارتی کارکن اور مسیحی مبلغ 84 سالہ اسٹین سوامی کی زیر حراست موت پر بھارت سرکار پر سخت نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔ سوامی کی موت کو 'قتل‘،'المیہ‘ اور'ناقابل معافی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3w67l
Indien Secunderabad 2020 | Protest gegen Verhaftung von Stan Swamy aka Stan Lourduswamy
تصویر: Noah Seelam/AFP/Getty Images

اقوام متحدہ اور یورپی یونین سمیت بھارت کی مختلف سیاسی اور سماجی جماعتوں نیز حقوق انسانی کی تنظیموں نے اسٹین سوامی کی حراست میں موت کے لیے 'جوابدہی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ پیر کے روز حراست کے دوران ممبئی کے ایک ہسپتال میں ان کی موت ہو گئی۔

قبائلیوں کے حقوق کے لیے سرگرم فادر اسٹین سوامی کو گزشتہ برس انسداد دہشت گردی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر سن 2018 میں بائیں بازو کے ایک ممنوعہ شدت پسند گروپ کے ساتھ مبینہ طور پر تعلق رکھنے کا الزام تھا۔حالانکہ انہوں نے اس الزام کی ہمیشہ تردید کی اور خفیہ ادارے بھی اب تک کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے تھے۔

ممبئی کی ایک جیل میں قید فادر سوامی پارکنسز کی بیماری میں مبتلا تھے۔ جیل میں ہی انہیں کووڈ انیس بھی ہو گیا تھا اور دو دن قبل ہی انہیں ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ عدالت جس وقت ان کی ضمانت کی عرضی پر سماعت آج منگل چھ جولائی کے لیے ملتوی کر رہی تھی اسی دوران ان کی موت کی خبر پہنچی۔ اس سے قبل بھی عدالت ان کی ضمانت کی متعدد عرضیاں مسترد کر چکی تھی۔

’یہ ادارہ جاتی قتل ہے‘

ایلگر پریشد کے نام سے معروف کیس میں سوامی کے ساتھ ہی سولہ دیگر افراد کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔ جن میں کئی اہم سماجی کارکن اور صحافی شامل ہیں۔

فادر اسٹین سوامی کی موت پر ان کے اہل خانہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے جیل میں بند دیگر کارکنوں کی صحت اور زندگی کے تئیں خدشہ ظاہر کیا ہے۔

بھارت: حراستی مرکز میں ایک اور پاکستانی کی موت

بیان میں کہا گیا ہے،”جب انہیں نوی ممبئی کے تلوجا سینٹرل جیل میں ڈالا گیا تھا تو 'دراصل اسی وقت ان کی سزائے موت کا اعلان کر دیا گیا تھا۔‘  ان کی موت نے ہم سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی فطری موت نہیں ہے بلکہ یہ ایک رحم دل انسان کا ادارہ جاتی قتل ہے، جس میں ایک سنگ دل ریاست ملوث ہے۔" بیان میں مزید کہا گیا ہے،”جھارکھنڈ میں قبائلیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد میں اپنی زندگی وقف کر دینے والے فادر اسٹین اس طرح کی موت کے حقدار نہیں تھے۔"

یورپی یونین اور اقوام متحدہ کا ردعمل

فادر اسٹین سوامی کی حراستی موت پر بھارت کے علاوہ دنیا کے دیگر ملکوں کی جانب سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ میری لالر نے ایک ٹوئٹ کر کے کہا،”بھارت سے موصول ہونے والی خبر انتہائی ہولنا ک ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار اور مسیحی مبلغ فادر اسٹین سوامی کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں نو ماہ قبل گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری ناقابل معافی ہے۔"

یورپی یونین میں انسانی حقوق کے خصوصی نمائندہ ایامن گیلمور نے اپنے ٹوئٹ میں کہا،''فادر اسٹین سوامی کی موت نے ہمیں غمزدہ کر دیا ہے۔ وہ قبائلیوں کے حقوق کے علمبردار تھے۔ ان کی حراست میں موت ہوئی ہے۔ یورپی یونین نے بھارتی حکام کے سامنے ان کے کیس کو متعدد بار اٹھایا تھا۔‘‘

بھارت کا فی الحال کوئی ردعمل نہیں

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اسٹین سوامی کے خلاف مقدمہ چلانے والی بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ نے بھی فی الحال اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

عدالت میں سابقہ سماعتوں کے دوران حکومت نے اسٹین سوامی کے ساتھ جیل میں کسی بھی طرح کے غلط سلوک سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ قانون کو اپنا کام کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

Indien | Neu-Dehli | Protest von Muslimischen Frauen
تصویر: DW/M. Javed

حالانکہ حکومت کی اس وقت بھی سخت نکتہ چینی کی گئی تھی جب اسٹین سوامی کو پانی پینے کے لیے ایک اسٹرا (Sipper)حاصل کرنے کی خاطر عدالت سے درخواست کرنی پڑتی تھی اور عدالت نے اس کی اجازت دینے میں بیس دن لگا دیے تھے۔ ہاتھوں میں لرزہ کی وجہ سے اسٹین سوامی گلاس بھی ٹھیک سے پکڑ نہیں پاتے تھے۔

اسٹین سوامی نے اپنی ضمانت کی ایک عرضی پر ویڈیو کانفرنسن کے ذریعے ہونے والی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ان کی حالت بگڑتی جا رہی ہے اور بہت جلد ان کی موت ہو سکتی ہے۔

بھارت میں حقوق انسانی کی پامالی اور دوہرے معیار کا مسئلہ

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی بھارت پر سخت تنقید

’وہ انصاف کے حقدار تھے‘

اسٹین سوامی کی موت پر متعدد سیاسی اور سماجی جماعتوں کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے سخت تنقید کی ہے۔

کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے سوامی کی موت پر اپنے ٹوئٹ میں کہا،''وہ انصاف اور انسانی سلوک کے حقدار تھے۔" سابق مرکزی وزیر خزانہ یشونت سنہا نے ان کی موت کو ”قتل" قرار دیتے ہوئے کہا ”ہم جانتے ہیں کہ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے۔"

کانگریس کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی نے لکھا، ”یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک شخص جس نے زندگی بھر غریبوں اور قبائلیوں کے حق کے لیے آواز بلند کی اسے موت کے وقت بھی انصاف اور انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔" مورخ رام چند گوہا نے فادر سوامی کی موت کو'المیہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے لکھا،”یہ المیہ ہے۔ یہ عدالتی قتل کا کیس ہے، جس کے لیے وزارت داخلہ اور عدالت دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔"

بائیں بازو کی جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری نے سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا،”کسی الزام کے بغیر اکتوبر سن 2020 سے یو  اے پی اے جیسے سیاہ قانون کے تحت ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ حراست میں ہونے والے اس قتل کی جوابدہی ہونی چاہیے۔"

'بھارتی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی منصوبہ بندی ‘

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بی لوکور نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وہ شروع سے ہی اس کیس پر نگاہ رکھے ہوئے تھے،”اس پورے معاملے سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اسٹین سوامی پر کوئی فرد جرم عائد کیے بغیر اور کوئی مقدمہ چلائے بغیر بظاہر سزائے موت دے دی گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی روح کو سکون ملے گا یا نہیں، لیکن مجھے امید ہے ایسا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ کہہ رہے ہوں گے 'خدایا ان لوگوں کو معاف کر دو کیونکہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔"