1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کی ’کامیابی‘ کا راز کیا ہے؟

امتیاز احمد31 دسمبر 2015

کابل حکومت ملک میں عسکریت پسندی کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر عائد کر دیتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مقامی حمایت کے بغیر افغان طالبان نہ تو کسی بڑے علاقے پر قبضہ اور نہ ہی طویل عرصے تک اسے اپنے کنڑول میں رکھے سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HWQr
Afghanistan Taliban Kämpfer Waffe
تصویر: T.White/AFP/Getty Images

حکومت کے حمایت یافتہ جنگی سردار غلام فاروق گھنی داڑھیوں والے مسلح محافظوں کے درمیان کھڑے بتاتے ہیں کہ آخر طالبان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ یہ افغان جنگی سردار مٹی کی دیواروں والے اس افغان گاؤں پر دوبارہ قبضہ کرنے پر کامیاب رہا ہے، جو گزشتہ پانچ برسوں سے طالبان کے کنٹرول میں تھا۔

ترکمانستان کے ساتھ سرحد سے ملحق افغانستان میں دور دراز کے شمال مغربی گاؤں قرہ کلی کی کہانی ہی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ نیٹو اور کابل حکومت ’ناکام‘ کیوں ہیں اور طالبان کیوں پیش قدمی کرتے جا رہے ہیں؟ صوبے فریاب میں طالبان مخالف ملیشیا کے کمانڈر غلام فاروق نے متعدد زمینی حملوں کے بعد اس گاؤں پر رواں برس اگست میں قبضہ کیا تھا۔ غلام فاروق کے بقول طالبان کے سخت طرز حکمرانی کے باوجود اس گاؤں کے لوگ حکومت سے بہت نالاں اور مایوس تھے۔

ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر غلام فاروق کا جنگلی انگوروں کی بیلوں اور گاؤں کی کچی سڑکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’دیکھیے، یہاں طالبان کی کوئی ایک بھی جیل نہیں ہے، کیوں کہ انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ وہاں تمام قیدیوں کے سر قلم کر دیتے تھے۔‘‘ طالبان سماجی آزادیوں، موسیقی، مغربی طرز لباس اور داڑھی منڈوانے وغیرہ کے بھی خلاف ہیں۔ انہی رویوں کو بنیاد بنا کر سن دو ہزار ایک میں ’طالبان کے افغانستان‘ پر حملہ کیا گیا تھا، لیکن تمام تر سختیوں کے باوجود طالبان ’شرعی عدالتی نظام‘ کا سہارا لیتے ہوئے مقامی باشندوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہتے۔ اس گاؤں کے مقامی باشندے مغرب کی حمایت یافتہ کابل حکومت کو نااہل اور بدعنوان سمجھتے ہیں اور یہی خلاء طالبان پورا کر رہے ہیں۔

کئی ملین ڈالر کی مدد سے قائم کردہ سرکاری قانونی نظام کے برعکس طالبان کی غیر رسمی مقامی عدالتیں زنا سے لے کر چوری تک کے تمام معاملات میں فوری فیصلے سناتی ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک تفصیلی جائزے کے مطابق مقامی افغانوں کی حکومتی اداروں سے رنجش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان رشوت طلب نہیں کرتے۔ اسی گاؤں کے ایک رہائشی کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’اگر آپ کسی شہری (سرکاری)عدالت میں چلے جائیں تو جج آپ کا پیسہ لے لیتا ہے، کلرک آپ کے کپڑے اتار لیتے ہیں اور وہاں کھڑے محافظ آپ سے وہ بھی چھین لیتے ہیں، جو کچھ باقی بچتا ہے۔‘‘

اس افغان شہری کا مزید کہنا تھا، ’’لوگ انصاف کے نام پر لُٹ جانے کی بجائے طالبان کا ظلم اور سب کچھ برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شہروں کی زیادہ تر آبادی طالبان کو ناپسند کرتی ہے لیکن دیہات میں حکومت کے مقابلے میں ان کے لیے حمایت زیادہ ہے۔ سن دو ہزار کے بعد سے اب طالبان کئی علاقے کنٹرول کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے تمام اضلاع میں سے نصف طالبان کے قبضے میں جا سکتے ہیں۔

کابل میں ایک مغربی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا، ’’نیٹو اور افغان سکیورٹی فورسز کی روزانہ کی کارروائیوں سے بغاوت ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہی ہے نہ کہ اس کا خاتمہ ہو رہا ہے۔‘‘

کابل حکومت سرکاری اداروں میں کرپشن اور مقامی باشندوں کی حمایت کو نظر انداز کرتے ہوئے آئے روز یہ الزام عائد کرتی ہے کہ پاکستان طالبان کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ ’’ریاست کے چور: کرپشن کیوں عالمی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہے؟‘‘ نامی کتاب کی مصنفہ Sarah Chayes کہتی ہیں، ’’بغاوت ایک بخار کی طرح ہے۔ صرف مسلح بغاوت کا مقابلہ کرنے سے بخار میں کمی تو آ سکتی ہے لیکن مریض کے مکمل علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ گورننس کو بہتر بنائے بغیر پائیدار امن لانا ناممکن ہے۔‘‘

49 سالہ غلام فاروق اس نجی ملیشیا کا حصہ ہے ، جس کا مقصد طالبان کے خلاف مقامی فورسز کو مدد فراہم کرنا ہے۔ ایسے نجی مسلح گروپوں پر بھی ڈکیتیوں اور لوٹ مار کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے بھی طالبان کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

احمد شاہ مسعود کے اس سابق کمانڈر کے مطابق اس نے مقامی آبادی کو یقین دلایا ہے، ’’ہم یہاں آپ کے ساتھ رہیں گے اور آپ کی حفاظت کریں گے۔‘‘ لیکن اس کے ساتھ ہی مسلح محافظوں میں کھڑے اس جنگی سردار نے یہ اعتراف بھی کیا، ’’اعتماد حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ حکومت اور لوگوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔‘‘