1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجرین کے لیے یکم نومبر کی مہلت، ملالہ بھی بول پڑیں

عاطف بلوچ رفعت سعید (کراچی)
28 اکتوبر 2023

یکم نومبر کی ڈیڈ لائن کے قریب آتے ہی پاکستانی حکام نے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ ادھر ملالہ یوسفزئی نے اسلام آباد سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اس سخت موقف میں تبدیلی لائے۔

https://p.dw.com/p/4Y9H0
Afghanistan Erdbeben Gayan
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

 حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین سمیت غیر قانونی طور پر پناہ لیے ہوئے افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کے آپریشن میں تیزی پیدا کر دی گئی ہے۔ ان افغانوں کو پاکستان سے جانے کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن دی گئی، جس کے بعد انہیں گرفتار اور زبردستی ملک بدر کر دیا جائے گا۔

تاہم کراچی میں موجود ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار رفعت سعید کا کہنا ہے کہ کم از کم کراچی میں تو اس حکومتی منصوبے پر عمل درآمد آسان نہیں ہو گا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سہراب گوٹھ اور افغان مہاجرین کی دیگر آبادیوں میں زندگی معمول کے مطابق رواں ہے اور وہاں کے حالات دیکھتے ہوئے ایسا تاثر نہیں ملتا کہ کوئی بوریا بستر سمیٹ کر کہیں جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں افغان مہاجرین کئی نسلوں سے آباد ہیں لیکن افغانستان میں طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد بھی افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان فرار ہونے کو ترجیح دی تھی۔ انہیں خوف تھا کہ طالبان انہیں ظلم و جبر کا نشانہ بنائیں گے۔

جنہوں نے افغانستان دیکھا ہی نہیں وہ افغان مہاجرین واپس کیسے جائیں؟

 

 جان کو خطرات ہیں تو واپس کیسے جائیں؟

افغانستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان افغانوں کو واپس وطن روانہ کیا گیا تو ان میں سے کئی کی جانوں کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ بالخصوص امریکی اتحادی افواج کے لیے کام کرنے والے لوگوں اور ان کے خاندانوں کے لیے۔ ساتھ ہی مذہبی و نسلی اختلافات کی وجہ سے بھی لوگ طالبان کے افغانستان نہیں جانا چاہتے۔

پاکستان سے افغان مہاجرین کی اس طرح واپسی کو دونوں ہمسایہ ممالک کے باہمی تعلقات میں ایک نئی پستی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔  

حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ رواں برس پاکستان میں ہوئے درجن بھر خود کش بم حملوں میں افغان شہری ملوث تھے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ریاست کے خلاف لڑنے والے جنگجو عناصر افغان سرحدوں کے پیچھے محفوظ پناہ گاہیں بنائے ہوئے ہیں۔ افغان طالبان کی خود ساختہ حکومت البتہ ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

پاکستان سے نکالے جانے والے افغان زیادہ تر اپنے آبائی علاقوں میں ہی بھیجے جائیں گے، جہاں اقوام متحدہ کے مطابق انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ عالمی ادارے نے اسلام آباد سے کہا ہے کہ وہ ان افغان مہاجرین کو طالبان کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے۔

پاکستان نظر ثانی کرے، ملالہ یوسفزئی

عالمی طاقتوں کے مطالبات کے ساتھ ساتھ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بھی اپیل کی ہے کہ حکومت پاکستان افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر کی جانے والی ملک بدری کے منصوبے پر نظر ثانی کرے۔

ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ طالبان کے جبر سے فرار چاہنے والے افغان مہاجرین کی حمایت کی جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افغان باشندوں کی عظمت اور سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔

چھبیس سالہ ملالہ یوسفزئی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر شائع کردہ بیان میں کہا کہ وہ بھی اقوام متحدہ کے مطالبے میں شامل ہوتے ہوئے حکومت پاکستان سے گزارش کرتی ہیں کہ وہ اپنے اس منصوبے پر دوبارہ غور کرے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی تعداد چوالیس لاکھ بنتی ہے۔ جن میں سے لگ بھگ سترہ لاکھ کے پاس پاکستان میں قیام کے سرکاری دستاویزات نہیں ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین ستمبر میں سرحدوں پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد پاکستان نے گزشتہ ماہ ہی غیر قانونی مہاجرین کو ملک سے نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں