1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان تنازعے پر پاکستان اور امریکا ایک ہی صفحے پر ہیں، قریشی

19 جنوری 2019

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسلام آباد حکومت افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے امریکا کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Bpc1
Pakistan Shah Mehmood Qureshi, Außenminister
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

ڈی ڈبلیو: طالبان سے مذاکرات کی امریکی کوششیں جاری ہیں لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک سے زائد مرتبہ پاکستان پر شدت پسندوں کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے تنقید کر چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ پاکستان پر شدت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔ کیا دونوں ممالک کے مابین تناؤ امن مذاکرات پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟

شاہ محمود قریشی: اس وقت ٹرمپ انتظامیہ میں بھی ایک نئی سوچ پیدا ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ اگر ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں تو یہ صرف مذاکرات کے بعد سیاسی مفاہمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ افغانستان میں ملک گیر مذاکرات آگے بڑھنے کا ایک بہتر طریقہ ہے۔

اس وقت طالبان، افغانستان، پاکستان، امریکا اور خطے کے قریب سبھی اسٹیک ہولڈرز ایک ہی صفحے پر ہیں۔ پاکستان مذاکرات میں معاونت کی کوشش کر رہا ہے۔ امید ہے کہ یہ عمل خطے کے لیے ’گیم چینجر‘ ثابت ہو گا۔

ڈی ڈبلیو: گزشتہ برس دہشت گردی سے متعلق عالمی واچ ڈاگ نے پاکستان کو دہشت گردوں کی فنڈنگ نہ روکنے پر اپنی ’گرے لسٹ‘ میں شامل کر لیا تھا۔ پاکستان اس ضمن میں عالمی برادری کو کیوں قائل نہیں کر پا رہا؟

شاہ محمود قریشی: پاکستان نے اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ حال ہی میں ہماری ایک ٹیم آسٹریلیا گئی تھی جہاں انہوں نے واچ ڈاگ کے نمائندوں کو ہماری حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ اب ہمیں ان سے مثبت ردِ عمل ملا ہے۔ امید ہے کہ اب کسی وقت پیرس میں اس معاملے پر گفتگو ہو گی اور پاکستان کو گرے لسٹ سے ہٹا دیا جائے گا۔

ڈی ڈبلیو: لیکن کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جماعت الدعوة کے خلاف کوئی عملی اقدامات نہیں کے۔۔۔

شاہ محمود قریشی: پاکستان نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے انتہائی سنجیدہ اقدامات کیے ہیں۔ ہم اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہیں اور ہم انہیں پورا کریں گے۔

ڈی ڈبلیو: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے حریف ملک بھارت سے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ لیکن ابھی تک ایسا ہوا نہیں، وجہ کیا ہے؟

شاہ محمود قریشی: ہم خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں اور اس کے لیے بھارت کے، جس کے ساتھ ہمارے کئی مسائل طے ہونا باقی ہیں، ساتھ مذاکرات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ جب ہماری جماعت اقتدار میں آئی تو ہم نے نئی دہلی کو مذاکرات کی دعوت دی۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ اگر بھارت امن کی جانب ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔

بدقسمتی سے بھارت میں عنقریب انتخابات ہونا ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی عام انتخابات کی تیاریوں میں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس وقت مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے۔ ہم نے بھارت کو پیش کش کی ہے اور یہ ایک سنجیدہ پیش کش ہے۔ جب بھی وہ تیار ہوں گے، ہم ان سے مذاکرات کریں گے۔

ڈی ڈبلیو: کیا وزیر اعظم عمران خان کی سول حکومت کے پاس ملکی خارجہ پالیسی طے کرنے کا مکمل اختیار ہے؟ سابق ادوار میں یہ معاملہ پاکستان کی طاقتور فوج اور سول حکومتوں کے مابین جھگڑے کا سبب بنتا رہا ہے۔

شاہ محمود قریشی: ملکی خارجہ پالیسی دفتر خارجہ ہی تیار کرتا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی یقینی طور پر دفتر خارجہ ہی کرتی ہے۔ ہمارا دفتر یہ کام کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد بات یہ ہے کہ ہمیں جو صورت حال درپیش ہے اس کے لیے ہمیں سلامتی سے متعلق ملکی اداروں کی سفارشات درکار ہوتی ہیں۔ ہم ان سے رابطے میں رہتے ہیں، ملکی مفادات کے حوالے سے کھل کر بات ہوتی ہے اور مل کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔

ش ح / ع ح (انٹرویو: شاہ میر بلوچ)