1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

افغانستان: ہندوکش میں طاقت کے حصول کی جدوجہد

27 جون 2021

افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا جاری ہے۔ ایسے میں کابل کے پڑوسی ممالک اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ افغانستان اپنی اسٹریٹیجک پوزیشن کی وجہ سے کئی دہائیوں سے  جنگ سے نبرد آزما ہے۔ اب کیا اس کا مستقبل پر امن ہو سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/3vd3G
نیٹو فوجیوں کا انخلا جاری ہے، لیکن مسائل اب بھی بر قرار ہیںتصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

چار دہائیوں سے زائد مدت سے افغانستان حالت جنگ میں ہے۔ اس سارے عرصے میں ایک چیز ہے، جو تبدیل نہیں ہوئی اور وہ ہے کہ افغانستان 'عالمی طاقتوں کا قبرستان‘ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے، جس کے بارے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے باعث ایک مرتبہ پھر بات کی جا رہی ہے۔

افغانستان مختلف نسلوں کے لوگوں کا ملک ہے لیکن ان نسلوں سے زیادہ مختلف اس ملک کے پڑوسی ممالک ہیں۔ ایران مغرب میں، دو حریف جوہری طاقتیں پاکستان اور بھارت مشرق میں، چین شمال مغرب میں اور تیل اورگیس سے مالا مال وسطی ایشیا شمال میں۔ مختلف وجوہات کے باعث افغانستان خطے کے ان تمام ممالک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ان پڑوسی ممالک کے اسٹریٹیجک مفادات افغانستان سے افواج کے انخلا کے بعد تبدیل ہو جائیں گے۔

Karte Afghanistan mit Nachbarländer EN
افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک

 افغانستان اینیلسٹس نیٹ ورک کے تھامس روٹیش کہتے ہیں،'' مخلتف ممالک کے مفادات میں تضاد ہے اور یہ افغان سرزمین پر دو طرفہ یا کئی طرفہ دشمنیوں یا تناؤ میں گھرے ہوئے ہیں۔‘‘

پاکستان اور بھارت، خطرناک تنازعہ

پاکستان اور بھارت کے درمیان شدید تناؤ ہے۔ بھارت افغان حکومت کا اتحادی ہے اور طالبان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ پاکستان بظاہر تو تردید کرتا ہے لیکن وہ  طالبان کو 'افغان گیم‘ میں اپنا سب سے اہم کارڈ تصور کرتا ہے۔ تھامس کہتے ہیں،'' جہاں تک افغانستان کا معاملہ ہے، پاکستان پر بھروسہ کرنا بہت سود مند نہیں ہو گا۔‘‘

انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے وابستہ انڈریو واٹیکنز کہتے ہیں کہ امریکا خطے میں ایک ایسا اڈہ رکھنا چاہے گا جہاں سے وہ ڈرونز یا فضائی حملے کر سکے لیکن یہ موضوع پاکستان میں انتہائی متنازعہ ہے، اس معاملے پر بات چیت خفیہ ہو گی اور شاید کئی سالوں بعد ہمیں حقائق کا پتا چلے۔

چین کیا چاہتا ہے؟

چین کے لیے سب سے بڑا خدشہ افغانستان میں شدت پسند تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ ہے۔ سینٹر فار گلوبل اسٹڈیز بون کے ڈائریکٹر گو زی یوی کے مطابق ،''چین کو سنکیانگ صوبے کے بارے میں خوف ہے، وہاں ایغور مسلمان آباد ہیں اور اسلامک اسٹیٹ وہاں اپنا اثر ورسوخ بڑھا سکتی ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم چین کو ایغور مسلمانوں کے ساتھ اس کے ناروا رویے پر حملوں کی دھمکی بھی دے چکی ہے۔‘‘

برلن میں افغان امور کی ماہر انگیلا سٹانزل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ایغور مسلمانوں کے گروہ چین کے لیے خطرہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ  اگر افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے انخلا سے خلا پیدا ہوتا ہے تو اسلامک اسٹیٹ کو افغانستان میں وہ ماحول دستیاب ہو جائے گا، جس کے ذریعے وہ چین اور وسطی ایشیا میں  پھیل سکتی ہے۔

امریکی فوجیوں کا تباہ شدہ سامان

تہران

کرائسس گروپ کے واٹیکنز کہتے ہیں کہ ایران چاہتا ہے کہ امریکا اس خطے میں اپنے کسی بھی طرح کے عزائم میں ناکام رہے، '' ایران چاہتا ہے کہ امریکا افغانستان سے نکل جائے کیوں کہ وہ افغانستان میں امریکا کی موجودگی کو خطے میں مداخلت کے طور پر دیکھتا ہے۔ لیکن ایران یہ نہیں دیکھ رہا کہ افغانستان میں بد امنی سے ایران براہ راست متاثر ہو گا۔‘‘ افغانستان میں جنگ کے باعث لاکھوں افغان شہریوں نے ایران میں پناہ لی ہے۔

Symbolbild | IAfghanische Flüchtlinge im Iran
 افغان مہاجرین نے ایران میں پناہ لے رکھی ہےتصویر: Getty Images/AFP/B. Mehri

افغانستان کا مستقبل کیسا ہو گا؟

انڈریو واٹیکنز کے مطابق کوئی بھی ملک چاہے تو اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے افغانستان کی پوری صورتحال کو تبدیل کر سکتا ہے اور یوں پورے کے پورے خطے کی صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔

لیکن دہلی اور اسلام آباد کے درمیان ایک چیز مشترکہ ہے، دونوں وسطی ایشیا کے وسائل تک پہنچنے کے خواہاں ہیں۔ سن 1990 کی دہائی سے ، ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان کے راستے  ہندوستان تک گیس پہنچانے کے ممکنہ پائپ لائن منصوبے کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔ اس منصوبے کو تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ کہتے ہیں اور اس میں چاروں ممالک کے نام شامل ہیں۔

فروری کے آغاز میں طالبان کے ایک وفد کے ترکمانستان  دورے کو تاپی گیس پائپ لائن منصوبے سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ طالبان نے پائپ لائن کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے اور اس کی حفاظت کی ضمانت دینے کا وعدہ  بھی کیا ہے۔

روٹیش کہتے ہیں ، ''افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک  کے لیے اس منصوبے کی کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے ۔ یہ اس خطے کا واحد  بڑے پیمانےکا اقتصادی منصوبہ ہے۔‘‘

ماتھیاس فان ہائن (ب ج، اا)