1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اللہُ اکبر، ’کمیونسٹ دفع ہو جاؤ‘

21 دسمبر 2018

انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں واقع چینی سفارت خانے کے سامنے چند سو افراد نے مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرین بیجنگ حکومت کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/3ATkI
Jakarta Protest Muslime gegen die Verfolgung von Rohingya
تصویر: Getty Images/B.Ismoyo

جکارتہ میں آج جمعے کو ہونے والے اس احتجاج میں مظاہرین نے چین میں ایغور مسلم برداری کے حراستی مراکز  فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس موقع پر مظاہرین نے ’اللہُ اکبر‘ اور ’کمیونسٹ دفع ہو جاؤ‘ جیسے نعرے بلند کیے۔

مظاہرین نے ہاتھوں میں’مسلم عقیدے کے اقرار‘ کے بینرز اور پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ احتجاج کرنے والے ان افراد کا مطالبہ ہے کہ چین میں بڑے پیمانے پر ایغور مسلم باشندوں کی پکڑ دھکڑ اور انہیں حراست میں لیے جانے کے عمل کو فوری طور پر بند کیا جائے۔

China Uiguren
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

مظاہرے کے منتظم سلامت ماعارف نے اپنے خطاب میں کہا، ’’یہ ہمارے بھائی ہیں، جنہیں چین کی کمیونسٹ حکومت کے استحصال، ظلم وستم اور سفاکی کا سامنا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کو فوری طور پر چینی سفارت کار کو بے دخل کر دینا چاہیے۔

ایک اندازے کے مطابق چینی صوبے سنکیانگ میں تقریباً دس لاکھ ایغور مسلم شہریوں کو حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ چینی حکومت انہیں تعلیمی و ذہنی تربیت کے مراکز کا نام دیتی ہے، جن میں مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے تربیت دی جا تی ہے۔

تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ ان مراکز میں ان کی سیاسی سوچ تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ساتھ ہی ان پر ان کا مذہبی عقیدہ چھوڑنے کے لیے دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی اس ہفتے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حراستی مراکز میں مقید کچھ ایغوروں سے زبردستی فیکٹریوں میں کام کروایا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک کیمپ کے افراد کھیلوں کا سامان بنانے والی ایک امریکی کمپنی کی مصنوعات تیار کرتے ہیں۔