1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکی صدر کا دورہ افغانستان، امن عمل کی بحالی کا عنديہ

29 نومبر 2019

امريکی صدر نے دورہ افغانستان پر طالبان کے ساتھ امن عمل کی بحالی کا عنديہ ديا جس پر طالبان کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ ايسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے غير رسمی بات چيت شروع ہو چکی ہے ليکن باقاعدہ مذاکرات ميں کچھ وقت لگے گا۔

https://p.dw.com/p/3Tvjf
Afghanistan | Donald Trump besucht Truppen zu Thanskgiving
تصویر: Getty Imags/AFP/O. Douliery

افغان طالبان نے کہا ہے کہ امريکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی بحالی فی الحال ’قبل از وقت‘ ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبيح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے اے ايف پی کو آج جمعے کی صبح ارسال کردہ اپنے ايک پيغام ميں کہا کہ ان کی جانب سے امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  کے حاليہ بيان پر واضح موقف اور سرکاری رد عمل کچھ وقت بعد سامنے آئے گا۔ مجاہد کے بقول اس وقت امن مذاکرات کی بحالی کی بات قبل از وقت ہے۔

افغان طالبان کی جانب سے يہ بيان گزشتہ روز امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بيان کے بعد سامنے آيا، جس ميں انہوں نے دعوی کيا تھا کہ طالبان کسے معاہدے کو حتمی شکل دينے کے ليے تيار ہيں اور اسی ليے امن مذاکرات کا عمل بحال ہو رہا ہے۔ ٹرمپ نے يہ بيان جمعرات کو امريکی تہوار ’تھينکس گيونگ‘ کے موقع پر افغانستان کے ايک مختصر اور غير اعلانيہ دورے پر ديا۔ امريکی صدر نے صحافیوں سے بات چيت ميں بتايا کہ امريکا کا مطالبہ رہا ہے کہ طالبان جنگ بندی پر راضی ہوں۔ قبل ازيں وہ يہ مطالبہ ماننے کو تيار نہ تھے تاہم  ذرائع کے مطابق اب ايسا معلوم ہوتا ہے کہ طالبان نے بھی جنگ بندی کا عنديہ ديا ہے۔

ايک طرف طالبان کے ترجمان نے باقاعدہ مذاکراتی عمل کی بحالی کو قبل از وقت قرار ديا ہے تو دوسری جانب گروہ کی اعلی قيادت نے نيوز ايجنسی روئٹرز کو بتايا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں امريکی نمائندگان اور طالبان کے مابين غير رسمی بات چيت پچھلے ہفتے سے جاری ہے اور امکان ہے کہ باقاعدہ مذاکرات بھی عنقريب شروع ہو جائيں۔ روئٹرز نے ذبيح اللہ مجاہد کے حوالے سے بھی لکھا ہے کہ انہوں نے مذاکرات کی بحالی پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، جس سے يہ تاثر پيدا ہوتا ہے کہ غير رسمی بات چيت جاری ہے تاہم باقاعدہ مذاکراتی عمل کی بحالی ميں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ دو سال سے جاری امن مذاکرات کا سلسلہ اس سال ستمبر ميں کابل ميں ايک حملے کے بعد اچانک رک گيا تھا۔

افغانستان ميں اس وقت تيرہ ہزار امريکی فوجی تعينات ہيں۔ مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بھی ہزارہا فوجی افغانستان ميں موجود ہيں۔ امريکا ميں گيارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے جاری امريکا کی اس طويل ترين جنگ ميں اب تک چوبيس سو سے زائد امريکی فوجی مارے جا چکے ہيں۔

امريکی صدر افغانستان کے بگرام ايئر بيس پر گزشتہ شب مقامی وقت کے مطابق لگ بھگ ساڑھے آٹھ بجے پہنچے۔ صدر بننے کے بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے پر انہوں نے ساڑھے تين گھٹنے اس ملک ميں گزارے۔ اس دوران ٹرمپ نےامريکی فوجيوں کے ساتھ عشائيے ميں شرکت کی، ان سے خطاب کيا اور ميزبان ملک کے صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی۔

ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں