1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکی وفد کے ساتھ مذاکرات، فاصلے کم ہوتے جا رہے ہيں: طالبان

4 مئی 2019

طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان سے غير ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے حوالے سے خصوصی امريکی نمائندے کے ساتھ جاری مذاکرات ميں پيشرفت ہوئی ہے اور اختلافات دور ہوتے جا رہے ہيں۔ قطر ميں ان دنوں امن مذاکرات کا چھٹا دور جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/3HvSj
Katar Doha Taliban Vertretung
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal

طالبان کے ترجمان سہيل شاہين کے مطابق افغانستان سے مغربی دفاعی اتحاد نيٹو اور امريکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے دونوں فريقين نے نئی تجاويز پيش کی ہيں۔ شاہين نے خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کو ہفتے چار مئی کے روز ارسال کردہ اپنے ايک آڈيو پيغام ميں اس پيش رفت کی اطلاع دی۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں افغان طالبان کے ترجمان نے کہا، ’’فريقين کے مابين فاصلے کم کرنے کے ليے تجاويز موجود ہيں تاہم کسی حتمی نتيجے تک پہنچنے کے ليے مزيد بات چيت درکار ہے۔‘‘

دوحہ ميں افغان طالبان کے افغانستان کے ليے خصوصی امريکی مندوب زلمے خليل زاد اور ان کے وفد کے ساتھ مذاکرات کا چھٹا دور جاری ہے۔ يہ مذاکراتی عمل پچھلے سال سے جاری ہے۔ خليل زاد کی سربراہی ميں ان مذاکرات ميں افغانستان سے امريکی افواج کے انخلاء کے ٹائم ٹيبل پر توجہ مرکوز رہی ہے۔ امريکا اس امر کی يقين دہانی بھی چاہتا ہے کہ طالبان دہشت گردوں کو پناہ فراہم نہيں کريں گے اور يہ بھی کہ وہ ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف لڑائی ميں بھی مدد فراہم کريں گے۔ شام اور عراق ميں شکست کے بعد ديگر کئی خطوں کے علاوہ داعش مشرقی افغانستان ميں بھی اپنے قدم جمانے کی کوششوں ميں ہے۔

مذاکراتی عمل سے واقف ديگر طالبان اہلکاروں نے قبل ازيں بتايا تھا کہ امريکا کو افغانستان ميں تعينات اپنے قريب چودہ ہزار فوجيوں کے انخلاء کا عمل مکمل کرنے کے ليے ڈيڑھ سال تک کا وقت درکار ہے۔ اس کے برعکس طالبان کا مطالبہ ہے کہ يہ عمل چھ ماہ ميں مکمل کيا جائے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ سہيل شاہين جن نئی تجاويز کا ذکر کر رہے ہيں، ان ميں اس مدت کے بارے ميں کيا پيش رفت ہے۔

دريں اثناء امن مذاکرات کے تازہ دور کے آغاز سے قبل خليل زاد نے اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں عنديہ ديا تھا کہ بات چيت کی توجہ افواج کے انخلاء، انسداد دہشت گردی کی يقين دہانی، افغانستان ميں داخلی سطح پر مذاکرات اور تشدد ميں کمی لانے پر مرکوز رہے گی۔ واضح رہے کہ مذاکراتی عمل کے باوجود طالبان نے اپنے حملوں اور پر تشدد کارروائنوں کا سلسلہ ترک نہيں کيا ہے۔

ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں